ملک میں مکمل مایوسی کے عالم میں حکمران اکثر وبیشتر شوشے چھوڑتے رہتے ہیں جن کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ گوادر پورٹ کے افتتاح کے موقع پر چینی رہنما ء گوادر نہ آسکے کیونکہ ان کے جہاز کو اترنے لے لیے گوادر ائیر پورٹ پر سہولیات مہیا نہیں تھے ۔ ائیر پورٹ کا رن وے چھوٹا تھا اس پر کسی کو شرم نہیں آئی نہ ہی حکمران شرمندہ ہوئے ۔ گوادر ائیر پورٹ کا منصوبہ گوادر پورٹ کی تعمیر کے ساتھ شروع ہونا تھاجو آج تک نہ ہو سکا ۔ وجہ؟ حکومت کو گوادر پورٹ اور ائیر پورٹ کے منصوبے مکمل کرنے میں نہ جلدی ہے اور نہ ہی دل چسپی ۔ گوادر پورٹ کے لئے صرف تین برتھیں تیار کی گئیں اس کے بعد کام روک دیا گیا۔ کوئی حکمران اس کا جواب دینے سے قاصر ہے ۔ بلوچ ماہی گیروں نے سابق صدر پرویزمشرف پر الزام لگایا کہ ساحلی شاہراہ فوجی ضرورت کی سڑک ہے یہ کراچی سے اورماڑہ تک تعمیر ہوگی ۔ گوادر تک تعمیر نہیں ہوگی اس پر صدر نے محکمہ مواصلات کے سکریٹری کو بلا کر حکم دیا کہ سڑک کی تعمیر دونوں جانب کراچی اور گوادر پورٹ کی جانب سے شروع کی جائے تب جا کر ساحلی شاہراہ مکمل ہوئی ۔ ورنہ دیگر شاہرائیں جو گوادر کو ملک کے دوسرے حصوں سے ملاتی ہیں تعمیر نہ ہوسکیں بلکہ ایک دہائی سے ان شاہراہوں پر کام روک دیا گیا ہے۔ حالیہ دور میں وزیرعلیٰ ڈاکٹر مالک کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے کہ ان شاہراہوں پر تعمیر کاکام تیز کردیا جائے گا۔ اس کیلئے چند ارب روپے بھی ریلیز کردئیے گئے گواد رپورٹ کو صرف کراچی سے لنک کردیا گیا ہے ۔ باقی دنیا سے کٹا ہوا ہے ۔ گوادر کی اصل ضرورت افغانستان اور وسط ایشیاء کے ممالک کو تھی ۔ افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک پاکستان سے مایوس ہوگئے اور انہوں نے اپنی توجہ چہاہ بہار کے پورٹ پر مرکوز کی ہیں بھارت بھی افغانستان اور وسط ایشیاء سے چہاہ بہار کے ذریعے تجارت کرے گا، گوادر پورٹ کے ذریعے نہیں کیونکہ یہ ریاست پاکستان کا فیصلہ ہے کہ بھارت کو تجارتی راہداری نہیں دی جائے گی تاوقتیکہ کشمیر کا تنازعہ حل نہیں ہوجاتا ۔ ایران ایک منصوبے کے تحت چہاہ بہار پورٹ کو ترقی دے رہا ہے یہ بندر گاہ نہ صرف ایرانی بلوچستان بلکہ وسطی ایران اور افغانستان کے بعض علاقوں کی تجارتی ضروریات پورا کررہا ہے ۔ حال ہی میں ایران نے چاہ بہار کو کاشغر سے ملانے کیلئے ایک بڑا منصوبہ شروع کیا ہوا ہے ۔ایران افغانستان کے بعض علاقوں تک ریل اور سڑک کی تعمیر کررہا ہے ۔ اس کو تاجکستان تک لے جائے گا اور چین سرحد کی دوسری جانب سے ریل اور سڑک تعمیر کرے گا خصوصاً تاجکستان تک دو طرفہ کام ہوگا۔ ایران کے پاس وسائل بہت ہیں وسائل کی کمی نہیں اس لئے یہ منصوبہ آئندہ چند سالوں میں مکمل ہوجائے گا۔ چین اپنے حصے کا کام بھی تیزی سے مکمل کرے گا۔ اس طرح سے چہاہ بہار اور کاشغر کی گزر گاہ جلد تعمیر ہوگی جس کو وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان بھی استعمال کرسکے گا۔پاکستان کی جانب سے کاشغر کی گزر گاہ تعمیر کرنے کی باتیں ہوا میں ہی رہیں گی ان پر عمل درآمد مشکل نظر آتا ہے ۔ پاکستان کے پاس وہ وسائل دستیاب نہیں کہ گوادر کو پاکستان کے مختلف شہروں سے ملا دے۔ لہذا یہ دور کی کوڑی ہے کہ گوادر تا کاشغر تجارتی گزر گاہ بنائی جائے گی اور دونوں شہروں کو ریل اور سڑک کے ذریعے ملا دیا جائے گا ۔ ابھی تک ریاست پاکستان کے منصوبہ سازوں نے یہ فیصلہ نہیں کیا کہ گوادر کی مجوزہ ریلوے لائن کو کس مقام پر پاکستان کے ریل نظام سے منسلک کیا جائے گا۔ ابھی تک اس کا فیصلہ نہیں ہوا ۔ ریلوے لائن اور سڑکوں کی تعمیر دور کی بات ہے ۔ بنیادی معاملہ یہ ہے کہ گوادر پورٹ کے دوسرے مرحلے پر کام کب شروع ہوگا یہ بھی کسی کو معلوم نہیں کہ چوتھا برتھ گوادر پورٹ کا کب تعمیر ہوگا۔ ایسے ماحول اور زمینی حقائق کے بعد لوگوں سے جھوٹ بولنا اور ان کو جعلی تسلی دینا ایک المیہ ہے۔ یہ ایک ذمہ دار ریاست کا کام نہیں ہے کہ وہ عوام الناس کو جھوٹی تسلیاں دے۔