|

وقتِ اشاعت :   July 23 – 2014

اروے کی آبادی 50 لاکھ ہے جس میں ایک لاکھ 94 ہزار لوگ مسلمان ہیں، جو یا تو کسی مسلمان ملک سے ناروے آئے یا وہ جو پیدا تو ناروے میں ہوئے مگر ان کے والدین کا تعلق کسی مسلمان ملک سے ہے۔ ناروے کی مسلمان آبادی میں پاکستانیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ پچھلے 30 برسوں سے پاکستانی ناروے کی سب سے بڑی غیر مغربی اقلیت ہیں۔ ملک بھر میں اس وقت 34 ہزار پاکستانی آباد ہیں، جن میں سے 23 ہزار اوسلو میں مقیم ہیں۔ یہاں تک کہ شہر کے ایک علاقے کو ’لٹل پاکستان‘ یا چھوٹا پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک نئی پیش رفت ہے کہ انتہائی شمالی یورپ کے علاقوں میں اتنی بڑی تعداد میں مسلمان آباد ہوں۔ اس پھلتی پھولتی مسلمان آبادی کے لیے ناروے میں سو سے زیادہ مساجد ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں رمضان کے اوقات کے سلسلے میں ایک سنجیدہ بحث بھی جاری ہے۔ یعنی سحری اور افطار کے اوقات کی پابندی کب اور کیسے کی جائے۔ جوں جوں سورج نکلنے اور ڈھلنے میں وقفہ کم ہوتا جا رہا ہے، یہ بحث زور پکڑتی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے ناروے کی سب سے بڑی مسجد، جماعت اہلِ سنہ کے امام قاری محمود الحسن کہتے ہیں کہ ملک میں اب ’کچھ ماڈرن قسم کے مسلمان یہ کہنے لگے ہیں کہ اللہ نے اسلام کے اندر بڑی آسانی رکھی ہے۔ تو اپنی آسانی کے لیے وہ بجائے قرآن کے اپنی عقل استعمال کرتے ہیں۔‘ بوسنیا سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر فاروق ترزک نے اسلام آباد میں قائم انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کی ہے اور اب اوسلو کی ’اسلامی کمیونٹی آف بوسنیا ہرسیگووینا‘ کے امام کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ناروے میں کچھ تارکین وطن اپنے آبائی ممالک کے اوقات کے مطابق سحر و افطار کرتے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ’جب سورج اتنی زیادہ دیر کے لیے طلوع یا غروب رہتا ہے تو بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’کیا ہم سورج کو معیار بنائے رکھیں گے؟‘ ثمینہ بھٹی پاکستان کی پیدائشی ہیں لیکن 1980 کی دہائی میں ناروے آئیں۔ تب سے ان کا پورا خاندان اوسلو میں مقیم ہے۔ ان کے خاندان کے لوگ سارے روزے رکھتے ہیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ملازمت اور دو چھوٹے بچوں کے ساتھ 20 گھنٹوں کا روزہ رکھنا کافی مشکل ہے۔ رات کے تقریبا 11 بجے افطار کے بعد وہ نماز اور تراویح پڑھنے اپنی مقامی مسجد جاتی ہیں۔ جب تک وہ واپس گھر پہنچتی ہیں، تقریباً ڈیڑھ بجے سحری کی تیاری میں مصروف ہو جاتی ہیں۔ یوں ان کی نیند کم رہتی ہے اور کام پر توجہ دینا مشکل ہوتا ہے۔ مختلف مذہبی رہنماؤں نے اس سلسلے میں مختلف تجاویز پیش کی ہیں کہ لمبے دنوں سے کیسے نمٹا جائے۔ اس مسئلے پر بحث سحر و افطار کے لیے قریب کے کسی اسلامی ملک کو معیار بنانے سے لے کر مکہ کی پیروی تک محیط ہے۔ تو ان لمبے دنوں سے نمٹنے کے لیے علما نے اس سال کیا فیصلہ کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں قاری محمود الحسن کا کہنا ہے کہ ناروے کے مختلف حصوں میں مختلف راستے پیش کیے گئے ہیں۔ ’شمالی ناروے جہاں سورج طلوع اور غروب نہیں ہوتا، وہاں شریعت یہ کہتی ہے کہ یا تو اپنے قریبی مسلم ملک کے اوقات کی پابندی کریں، یا اوسلو کی، یا پھر سعودی عرب کے اوقات کی پابندی کریں۔‘ اس کے برعکس اوسلو کی طرح ملک کے جنوبی علاقوں میں ناروے کے علما نے ایک مخصوص وقت مقرر کیا ہوا ہے۔ اوسلو میں موسم گرما کے دن انتہائی طویل ہوتے ہیں اور ایک روزہ 20 گھنٹوں تک کا ہو سکتا ہے، لیکن قاری محمود کے مطابق چونکہ یہاں ’سورج باقاعدہ طلوع اور غروب ہوتا ہے، اس لیے یہاں کے مسلمان مقامی وقت کی ہی پابندی کریں گے۔‘ جب میں نے ڈاکٹر فاروق ترزک سے پوچھا کہ ناروے جیسے ملکوں کے بارے میں علما رمضان کے اوقات کے موضوع پر کیا کہتے ہیں تو انھوں کہا کہ ’اس سوال کا ایک مشہور جواب تو یہی ہے کہ اگر آپ کسی ایسی جگہ ہیں جہاں دن اور رات کے اوقات میں اتنا زیادہ فرق نہ ہو تو آپ کو اپنے قریب ترین مقام کے اوقات کی پیروی کرنی چاہیے جہاں دن رات کے اوقات نارمل ہوں۔‘ لیکن انھوں نے مزید بتایا کہ ناروے میں کچھ لوگ انفرادی طور پر اس تجویز پر عمل کرتے ہیں لیکن بطور ادارہ اسے ناروے میں نہ تو کسی مسجد نے قبول کیا ہے اور نہ ہی کسی تنظیم نے۔ لمبے دنوں اور رمضان کے اوقات پر بحث کے باوجو اوسلو کے مسلمان اس سال سورج کی پہلی اور آخری کرن کے مطابق ہی روزے رکھ رہے ہیں، اور یہ کرنیں ثمینہ بھٹی جیسے روزہ داروں کے روز و شب پر بہت اثر انداز ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر فاروق ترزک کے مطابق اکثر نارویجین مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ رمضان کے اوقات کے سلسلے میں نئے طریقے تلاش کیے جائیں۔ وہ کہتے ہیں ’چونکہ فقہ میں یہ بحث نہیں ہوئی اس لیے اجتہاد کی گنجائش ہے۔‘ لیکن شاید نارویجین مسلمانوں کو اس بات سے حوصلہ افزائی مل سکتی ہے کہ جب رمضان موسم سرما کے مہینوں میں آئےگا تب ان کے لیے اتنی ہی آسانی ہو گی۔