|

وقتِ اشاعت :   July 23 – 2014

پاکستان بنیادی طورپر ایک روشن خیالی جمہوری ملک ہے اس میں سب کے حقوق برابر ہیں ۔ مسلمان اقلیتیں ، عورت اور مرد ، غریب اور امیر ، سب کے حقوق آئین میں یکساں ہیں۔ تاہم جنرل ضیاء الحق اور اس کے رفقاء نے اپنی ذاتی مفادات کے خاطر پاکستان کے آئینی نظام کو تہس نہس کر ڈالا ۔ افغان کی خانہ جنگی میں کود گئے اور انہوں نے مجاہدین پیدا کیے۔ انہوں نے پہلی بارشدت پسندوں کو سیاست میں داخل کرادیا اور پاکستان اور اس کے عوام اس کی سزا آج تک بھگت رہے ہیں ۔ اسی شدت پسندی کو پروان چڑھانے پر شدت پسند اتنے طاقتور ہوگئے کہ اب وہ ریاست اور ریاستی اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں ۔ اس دوران برداشت کرنے کا معاملہ ختم ہوگیا،جو بھی شدت پسندوں کے مسلک اور عقیدے کو پسند نہیں کرتااور اس پر عمل نہیں کرتا اس کو واجب القتل قرار دیتے ہیں ۔ اور اب یہی پاکستان میں ہورہا ہے اور آج کل عراق اور شام میں شدت پسند کررہے ہیں ۔ گزشتہ روز کوئٹہ شہر کے کلی کمالو میں تین خواتین کے چہروں پر اس وقت تیزاب سے حملہ کیاگیا جب وہ خریداری میں مصروف تھیں ۔ظاہر ہے یہ حملہ مدرسوں کے تربیت یافتہ شدت پسندوں نے کیا ۔ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی کئی ایک واقعات ہوچکے ہیں ان میں ایک واقعہ قلات میں بھی پیش آیا تھا ۔ انتہا پسند اور مذہبی جنونی مجرموں نے خواتین پر قلات میں تیزاب سے حملہ کیا تھا ۔ سول سوسائٹی اس بات پر حیران ہے کہ پوری ریاست اور اس کی مشینری مجرموں کا پتہ لگانے میں ناکام ہوگئی یا حکومت کو اس میں دل چسپی نہیں ہے ۔ وہ بھی پنجاب حکومت کی طرح مذہبی انتہا پسندوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتی ۔ بعض اچھے اور ایماندار پولیس افسران نے ان شدت پسندوں کا پتہ لگانے کی کوشش کی اور وہ کسی قدر ان مجرموں کے قریب تک پہنچ گئے تو ان کو گھات لگا کر قتل کردیا گیا بعض اعلیٰ افسران کے گھروں پر خودکش حملے ہوئے ۔ ظلم خدا کہ ریاست اورریاست کی پوری مشینری نے ان ایماندار پولیس افسران کا ساتھ نہیں دیا جن کو گھات لگاکر شہید کیاگیا اور بعض کے گھروں پر خودکش حملے ہوئے۔ جس کا صاف مطلب اور پیغام یہ تھا کہ پولیس افسران،، حساس معاملات،، کی طرف نہ جائیں اور ہر چیز جاننے کی کوشش نہ کریں ۔ اسی لئے سینکڑوں افراد قتل ہوئے اور آج تک مذہبی دہشت گردی کا کوئی ملزم نہیں پکڑا گیا ۔ البتہ ،، مقابلوں ،، میں بہت سے ملزم کو گولیاں مار کر ہلاک ضرور کیاگیا ان میں لشکر جھنگوئی کے اہم ترین رہنما شامل تھے ۔ چونکہ حکومت شدت پسندوں کو گرفتار کرنے سے گریز کررہی ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ سول سوسائٹی یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں لے اور ان تمام عناصر کو بے نقاب کرے جو طاقتور لوگوں کی سرپرستی میں ملک میں مذہبی جنون کو ہوا دے رہے ہیں ۔ اس کو روکنے کا واحد طریقہ ہے کہ ان کے خلاف عوامی رائے کو مضبوط بنایا جائے تاکہ ان کا حمایتی کوئی نہ ہو ۔