ملک کے حکمران عوام کو دھوکہ دینے کے لئے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں ملک میں توانائی کا بحران ہے حکمرانوں کو اس بحران کو حل کرنے میں کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ مثلاً ایران ، پاکستان گیس پائپ لائن کا منصوبہ موجودہ حکومت نے ترک کردیا ۔ وزیر پیٹرولیم کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ حکومت اس منصوبہ پر عمل درآمد نہیں کرے گی جس وقت ایران پاکستان گیس کا معاہدہ ہواتھا تو اس وقت شہباز شریف ، وزیراعلیٰ پنجاب نے اس منصوبے کی مخالفت کی تھی اور اس منصوبہ کو ،، فراڈ ،، قراردیا تھا ۔ شاید اس منصوبہ میں پی پی پی کی حکومت شامل تھی اور دوسری وجہ ایران ، پاکستان گیس پائپ لائن پنجاب سے نہیں گزرتی ۔ چنانچہ مسلم لیگ کی حکومت کا پہلا فیصلہ یہ تھا کہ ایران ، پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ منسوخ کیاجائے اورایران سے از سر نو مذاکرات کیے جائیں ۔حالانکہ ایران نے اپنے حصے کا کام مکمل کرکے گیس پائپ لائن کو پاکستان بلوچستان کے سرحد تک پہنچا دیا ہے ۔ اب ایران بضد ہے کہ وہ پاکستان کو اس کی سزا دے اور وہ سزا یہ ہے کہ اگر حکومت پاکستان نے موجود ہ سال دسمبر تک منصوبہ مکمل نہیں کیاتو اس پر روزانہ80لاکھ ڈالر جرمانہ اداکرنا پڑے گا ۔ موجودہ حکومت کی پالیسیوں کے پیش نظر یہ مشکل نظر آتا ہے کہ ایران کسی نرمی کا مظاہرہ کرے ایران وہ رقم ضرور حاصل کرنے کی کوشش کرے گا چاہے کچھ ہی کیوں نہ ہو۔ دوسری جانب وزیر پیٹرولیم نے ایک بار پھر انکشاف کیا ہے کہ ترکمان ، افغانستان ، پاکستان اور بھارت پائپ لائن تعمیر ہوگی اور پاکستان کو 1.36ارب مکعب فٹ گیس ملے گی۔ کب ملے گی؟ جب یہ منصوبہ مکمل ہو۔ یہ کب مکمل ہوگا؟ آزاد ماہرین معاشیات کو یہ یقین ہے کہ آئندہ دس سالوں تک ترکمان گیس پائپ لائن مکمل نہیں ہوگی ۔ یہ ہوائی باتیں ہیں اور لوگوں کو صرف دلاسہ دینے کے لئے ہیں کہ حکومت ملک میں توانائی کا بحران حل کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے فوراً بعد دنیا کی نگاہیں وسط ایشیائی ممالک کے قدرتی وسائل پر پڑیں ۔ اسی دوران ترکمان گیس پائپ لائن کامنصوبہ سامنے آیا ۔ وسط ایشیائی ممالک گوادر کی بندر گاہ پر بہت زیادہ امیدیں لگائے ہوئے تھے ۔ ایشیائی ترقیاتی بنک نے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کیلئے 11.5ارب ڈالر مختص کیے تھے جس میں گوادر کو ریل اورسڑک کے ذریعے وسط ایشیائی ممالک سے ملانا تھا ۔ اس کے ساتھ ساتھ گیس اور تیل کی پائپ لائن گوادر پورٹ کے ذریعے دنیا کے ممالک میں برآمد کی جانی تھی۔ یونین ٹیکساس کمپنی جس نے سندھ میں تیل کے وسائل پر زبردست سرمایہ کاری کی اس نے ترکمان گیس منصوبہ میں دلچسپی کے باعث اپنے حصص سندھ میں فروخت کردئیے اور ترکمان گیس پائپ لائن پر اپنی توجہ مرکوز کی۔اسی دوران طالبان کا افغانستان پرقبضہ ہوگیا ۔ طالبان کی حکومت اقتدار کے لئے پاکستان کی مرہون منت تھی ۔ یونی کول ، ایک امریکی کمپنی نے دو طالبان وزراء کو امریکا آنے کی دعوت دی جہاں پر طالبان سے ترکمان گیس پائپ لائن پر مذاکرات ہوئے ۔ دونوں وزراء نے وائس آف امریکا کے اردو سروس میں انٹر ویو میں یہ مطالبات کیے کہ امریکا طالبان کو 20ہزار ملازمتیں اور چھ ارب ڈلر کیش دے ۔ اس پر یونی کول نے اپنا منصوبہ ترک کردیا ۔ ظاہر ہے کہ طالبان کے دو وزراء پاکستان کی مرضی کے مطابق ترکمان گیس پائپ لائن کی تعمیر میں رخنہ ڈالنا چاہتے تھے مختصر یہ کہ 1990کی دہائی میں پاکستان کی حکومت نے ترکمان گیس پائپ لائن کا منصوبہ ختم کرادیا جبکہ یونی کول کی امریکی کمپنی اس کی تعمیر کرنا چاہتی تھی ۔ ایشیائی ترقیاتی بنک نے بھی ساڑھے گیارہ ارب ڈالر مختص کیے تھے۔ اب تو نیا سرمایہ کار تلاش کرنا پڑیں گے۔ بہر حال اس میں طویل وقت لگے گا کہ ترکمان گیس پائپ لائن مکمل ہو۔ زیادہ بہتر یہ تھا کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن ایک آدھ سال میں مکمل کر لیتے جس سے ملک میں توانائی کے بحران کو حل کرنے میں مدد ملتی ۔