|

وقتِ اشاعت :   July 26 – 2014

اسلام آباد: ترجمان وزیراعظم ہاؤس نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کو فوج کے حوالے کرنے کا فیصلہ واپس لیے جانے سے متعلق رپورٹس کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوج طلبی کا فیصلہ واپس نہیں لیا گیا۔ ترجمان وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ فوج طلب کرنے کا نوٹیفیکیشن گزشتہ روز ہی جاری کردیا گیا تھا۔ وزارت داخلہ بھی اسلام آباد میں فوج طلب کرنے کے حوالے سے بیان جاری کرچکی ہے۔ دوسری جانب ضلعی انتظامیہ اسلام آباد کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں 245 کے تحت فوج تعینات کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا جاچکا ہے۔ نوٹیفیکیشن ڈپٹی کمشنر مجاہد شیردل نے 24 جولائی کو جاری کیا تھا۔ اس سے قبل یہ خبر سامنے آئی تھی کہ وفاقی دارالحکومت کو فوج کے حوالے کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے گزشتہ روز وفاقی دارالحکومت میں آرٹیکل دوسوپینتالیس کے تحت فوج طلب کرنے کا اعلان کیا تھا۔ فیصلے کے مطابق اسلام آباد کو سیکورٹی خدشات کے پیش نظر تین ماہ کے لیے فوج کے حوالے کیا جانا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یکم اگست سے فوج کو اختیارات دے دیے جائیں گے۔ واضح رہے کہ آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت جہاں کہیں بھی سول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج کو طلب کیا جاتا ہے تو اُس علاقے میں ہائی کورٹ کے اختیارات ختم ہوجاتے ہیں۔ فوج کی موجودگی کے دوران ہونے والے اقدامات کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی فوج کی طرف سے ہونے والی کارروائی کے خلاف حکم امتناعی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے بھی حکومت کے اس فیصلے کی مخالفت کا اعلان کیا تھا۔ پی پی پی کے ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومتی فیصلے سے ملک اور عوام کے لیے سنگین نتائج سامنے آئیں گے۔ بیان میں کہا گیا کہ اس پیشرفت سے یہ مطلب بھی اخذ کیا جائے گا کہ سول انتظامیہ مکمل طور پر ناکام ہو گئی جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار بھی معطل ہو جائے گا، درحقیقت فیصلے فوجی عدالتوں میں ہوں گے جس کی قطعی طور پر اجازت نہیں دی جا سکتی۔ فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ کراچی سمیت ملک کے کسی بھی حصے میں آرٹیکل 245 کے تحت سول انتظامیہ کے دائرہ اختیار میں فوج طلب کرنے کی مخالفت کی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اسلام آباد کی صورتحال ملک کے دیگر علاقوں سے زیادہ خراب نہیں ہے جس کے لیے عدالتی دائرہ اختیار سے باہر سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو طلب کیا جائے۔