امریکی حکومت نے جمعے کے روز پاکستان پر زور دیا کہ افغانستان کی سرحد کے قریب جاری پاکستانی فوج کے آپریشن کے بعد حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کو اپنی روایتی پناہ گاہوں کی جانب واپس لوٹنے سے روکا جائے۔
افغانستان کے قریب پاکستانی سرحدی علاقوں میں سرگرم حقانی نیٹ ورک پر نیٹو اور افغان فوجیوں پر حملوں کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے نیشنل سیکورٹی کونسل کے نمائندے جیفری ایگرز نے کولاراڈو میں ایک فورم کے دوران کہا کہ ہم اعتراف کرتے ہیں کہ حقانی بے گھر ہوگئے ہیں اور ان کی کارروائیاں متاثر کی گئی ہیں لیکن انہیں دوبارہ ان کے روایتی علاقوں میں بسنے نہ دیا جائے۔
امریکا حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کا مطالبہ پاکستان سے متعدد مرتبہ کرچکا ہے۔ اسلام آباد کا کہنا ہے کہ ان دنوں جاری فوجی آپریشن کے دوران حقانیوں سمیت تمام عسکریت پسندوں کو ہدف بنایا جائے گا۔
واشنگٹن کے لیے پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی نے اس موقع پر کہا کہ حقانی جنگجو آپریشن سے قبل ہی علاقہ چھوڑ چکے تھے کیوں کہ آپریشن کا پہلے ہی سے اعلان کردیا گیا تھا۔
جیلانی نے افغانستان پر زور دیا کہ وہ اس حوالے سے پاکستان سے مزید تعاون کرے اور وہاں فرار ہونے والے شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
جیلانی نے کہا کہ افغانستان کی جانب سے مناسب تعاون کیا جارہا ہے لیکن ہم چاہیں گے کہ تعاون کو مزید بڑھایا جائے تاکہ حتمی فتح حاصل کی جاسکے۔
واشنگٹن کے لیے افغان سفیر اکلیل حکیمی نے کہا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق حقانیوں کو پاکستان ہی میں محفوظ پناہ حاصل ہے۔
افغانستان میں امریکا اور نیٹو افواج کے سابق فور اسٹار جنرل جان ایلن نے اسلام آباد کی اس حوالے سے آمادگی پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔
ایلن نے کہا کہ جب میں وہاں کمانڈر تھا، حقانی نیٹ ورک نے میرے 500 فوجیوں کو ہلاک کیا اور وزیرستان میں آپریشن کے دوران کسی نہ کسی وجہ سے حقانی بچ جاتے تھے۔
امریکی قانون ساز نے پاکستان کو خبردار کیا کہ پاکستان کو حقانیوں کے خلاف کارروائی کرنی پڑے گی ورنہ وہ امریکی امداد سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔