راولپنڈی : ہوسکتا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو واپس لانے کے لیے اپنی ہرمکن کوشش کی ہو مگر ان دونوں کے درمیان اختلافات نے راولپنڈی میں حکمران جماعت کے اندر پائی جانے والی دراڑوں کو مزید گہرا کردیا ہے۔
راولپنڈی کی پارٹی کی تنظیم اب تین گروپس میں تقسیم ہوچکی ہے، جس میں سے سردار نسیم گروپ(جس کے سرپرست چوہدری نثار ہیں) اور حنیف عباسی گروپ (حمزہ شہباز سرپرست) کے درمیان رقابت اب ایک کھلا راز بن چکی ہے۔
حال ہی میں یعنی جمعرات چوبیس جولائی کو مسلم لیگ ن کے زیراہتمام ایک افطارپارٹی میں چوہدری نثار اور دیگر ہم خیال ن لیگی رہنماء شریک ہوئے مگر حنیف عباسی اور ان کے حامیوں کو مدعو تک نہیں کیا گیا۔
یہ تقسیم اس وقت پیدا ہوئی تھی جب گزشتہ سال عام انتخابات میں ن لیگ راولپنڈی میں پی ٹی آئی کے ہاتھوں تین نشستیں ہار گئی تھی۔
اس کمزور کارکردگی کا الزام چوہدری نثار کے سر ڈال دیا گیا، کیونکہ بیشتر ٹکٹیں ان کے مشورے سے ہی تقسیم کی گئی تھیں، جس کے نتیجے میں پنجاب میں مئی 2013ء کے بعد جیسے ہی ان کی جماعت نے حکومت تشکیل دی تو ان کا اثرورسوخ کمزور ہوگیا۔
ن لیگ کے آخری دور حکومت میں راولپنڈی ڈویژن کے چاروں اضلاع میں بیشتر بیوروکریٹس اور پولیس افسران کی تقرریاں چوہدری نثار کی سفارشات پر ہوتی تھیں، مگر گزشتہ سال کے انتخابات کے بعد غیراعلانیہ طور پر حمزہ شہباز راولپنڈی ڈویژن میں افسران کی تقرریوں سے سمیت دیگر ذمہ داریاں سنبھالنے لگے۔
ن لیگ کے ایک کارکن کا کہنا ہے “حمز شہباز راولپنڈی میں پرانے ورکرز کو نظرانداز کرکے اپنی پسند کے افراد تعینات کرنا چاہتے ہیں”۔
اس مقصد کے لیے چوہدری نثار سے قریبی مقامی رہنماﺅں کو سائیڈلان کریا گیا ہے، جبکہ حنیف عباسی کو میٹروبس پروجیکٹ کا چیئرمین بنانے سے یہ دراڑ مزید گہری ہوگئی ہے۔
ایک سنیئر ن لیگی رہنماء نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا “چوہدری نثار حنیف عباسی کو اتنی ہائی پروفائل پوسٹ دینے کے حامی نہیں تھے”۔
رہنماء نے مزید بتایا کہ حنیف عباسی، خواجہ آصف، حمزہ شہباز اور ریئل اسٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض کے قریب ہیں، جو کہ راولپنڈی میں چوہدری نثار کے سیاسی حریفوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں، اسی طرح خواجہ آصف اور چوہدری نثار ایک دوسرے سے بات تک نہیں کرتے۔ درحقیقت وزیر داخلہ کی حنیف عباسی سے بیزاری اتنی زیادہ ہے کہ انہوں نے نواز شریف کی شیخ رشید سے مصالحت کی کوشش بھی کرائی تھی۔
ن لیگی رہنماء نے کہا “گیارہ مئی سے قبل چوہدری نثار نے کوشش کی تھی کہ شیخ رشید احمد کو واپس مسلم لیگ ن میں لے آئیں مگر نواز شریف نے انہیں قبول کرنے سے انکار کردیا’۔
رہنماءنے کہا کہ اگر شیخ رشید ن لیگ میں واپس آجاتے تو حنیف عباسی غیرمتعلقہ فرد بن جاتے، کیونکہ اس وقت اس نشست کے امیدوار ہوتے، جہاں سے شیخ رشید کھڑے ہوتے ہیں۔
ایک پارٹی رہنماء نے بتایا کہ جماعتی تقسیم اس وقت مزید واضح ہوگئی تھی جب راولپنڈی میں انیس جولائی کو آئی ڈی پیز کے لیے ایک میچ کا انعقاد کیا گیا۔
راولپنڈی سے مسلم لیگ ن کے اراکین پارلیمنٹ طاہرہ اورنگزیب اور ملک ابرار سمیت کچھ ایسے رہنماء جو عام انتخابات میں ہار گئے تھے، جن میں سردار نسیم اور ملک شکیل اعوان شامل ہیں، نے اس ایونٹ میں شرکت تو کی، مگر حنیف عباسی کی موجودگی میں وزیر قانون پنجاب رانا مشہود سے ملنے سے انکار کردیا۔
جس پر وہ میچ کے بعد کمشنر کے دفتر میں ان سے علیحدگی میں ملے، اور یہ مشکلات کی کہانی بیان کرنے والا واحد واقعہ نہیں۔
سردار نسیم اور شکیل اعوان میٹروبس کی مانیٹرنگ کمیٹی کے اراکین بھی ہیں مگر وہ اس کے اجلاس میں شریک ہونے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے۔
راولپنڈی کی ضلعی حکومت کے ایک سنیئر عہدیدار نے بتایا “سردار نسیم، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری اور ملک شکیل اعوان نے میٹروبس سروس کی مانیٹرنگ کمیٹی کے پہلے اجلاس میں شرکت کی تھی اور پھر دوبارہ نہیں آئے”۔
ایک سنیئر پارٹی رہنماء نے دعویٰ کیا کہ جو لوگ اجلاسوں میں شریک نہیں ہورہے انہیں اب مدعو بھی نہیں کیا جارہا “ہم لوگوں کو دوہفتے قبل لاہور میں ہونے والے اجلاس میں مدعو نہیں کیا، جب فیصلہ سازی میں ہمارا کوئی کردار نہیں تو ہم ان اجلاسوں میں شرکت کیوں کریں”۔
رابطہ کرنے پر سردار نسیم نے بتایا کہ وہ گوجرانوالہ اور راولپنڈی ڈویژن میں پارٹی امور میں مصروف ہیں، جبکہ شکیل اعوان نے ڈان کو بتایا “میری حاضری اس طرح کے اجلاسوں میں ضروری نہیں تھی”۔
ماضی میں سردار نسیم کے مخالفین پارٹی میں نئے انتخابات چاہتے تھے، تاہم اب وہ اور ان کے قریبی ساتھی نئے انتخابات کا انعقاد نہیں چاہتے، جب اس بارے میں سردار نسیم سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے پارٹی میں گروپنگ کا اعتراف کیا “ایک گروپ پرانے ورکرز کا ہے، جبکہ اس کے سرپرست لاہور سے تعلق رکھنے والے کچھ رہنماء ہیں”۔
ان کا اصرار تھا کہ سیاسی جماعتوں میں گروپنگ کوئی غیرمعمولی بات نہیں، تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کچھ نئے افراد پارٹی کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جن کے لیے پارٹی ٹکٹ کا اعلان پولنگ ڈے سے انیس روز قبل کیا گیا تھا، وہ اور دیگر افراد انتخابات میں کچھ نشستوں میں ناکامی کے ذمہ دار ہیں، “مگر پارٹی تو وہ نشست بھی ہار گئی جس کے امیدوار کا اعلان پانچ برس قبل ہی کردیا گیا تھا”۔
یہ بلاواسطہ طور پر حنیف عباسی کی طرف اشارہ تھا جو راولپنڈی میں اپنی نشست پر ناکام ہوگئے تھے۔