|

وقتِ اشاعت :   July 29 – 2014

اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی نے سول انتظامیہ کی مدد کے لیے اسلام آباد میں فوج طلب کرنے کے حکومتی فیصلے کو پارلیمنٹ میں اٹھانے کا فیصلہ کر لیا۔ سابق حکمران جماعت نے ‘آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت دارالحکومت کو فوج کے حوالے کرنے سے پیدا ہونے والی صورتحال پر بحث ‘کے لیے سینیٹ میں تحریک التواء جمع کرائی ہے ۔ فرحت اللہ بابر کی جانب سے جمع کرائی گئی تحریک میں کہا گیا کہ ‘ آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو طلب کرنے سے ملک میں سیاسی استحکام اور سول –ملٹری تعلقات پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے’۔ تحریک میں ایوان بالا سے درخواست کی گئی کہ معمول کی کارروائی معطل کرتے ہوئے اس موضوع پر فوری بحث کا آغاز کیا جائے۔ خیال رہے کہ سینیٹ کا اجلاس پہلے ہی آٹھ اگست کو بلایا گیا ہے۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے چودہ اگست کو اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کو روکنے کے لیے فوج طلب کی ہے۔ تاہم ، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اتوار کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ فوج طلب کرنے کا فیصلہ شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب شروع کرنے سے پہلا ہوچکا تھا۔ فرحت اللہ بابر نے ڈان سے گفتگو میں کہا کہ آرٹیکل 245 کے تحت فوج کی سرگرمیوں کو ہائی کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ ‘حتیٰ کہ طاقت کے صوابدیدی استعمال کی شکایات پر ماڈل ٹاؤن سانحہ جیسی عدالتی تحقیقات بھی نہیں کی جا سکتی’۔ بابر کا کہنا تھا کہ پی پی پی نے ماضی میں قدرتی آفات، سانحات اور محرم کے جلوسوں میں سول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج کو طلب کیا تھا، تاہم اس نے کبھی بھی اعلی عدالتوں کا دائرہ اختیار ختم کرنے کی اجازت نہیں دی۔ پی پی پی رہنما کا کہنا تھا کہ سول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج کو’ کریمنل پروسیجر کوڈ’ اور ‘پاکستان پینل کوڈ’ جیسے قوانین کے تحت بھی بلایا جا سکتا ہے۔ ان دونوں قوانین میں اعلیٰ عدالتوں کے دائرہ اختیار ختم نہیں ہوتا اور کسی بھی شکایت کی صورت میں عدالتوں کا رخ کیا جا سکتا ہے۔ بابر نے یاد دلایا کہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں اُس وقت کی فوجی سربراہ اسلم بیگ نے کراچی میں فوجیوں کی تعیناتی کی صورت میں آرٹیکل 245 کے تحت اختیارات مانگے تھے۔ تاہم بے نظیر بھٹو نے اس کی اجازت نہیں دی اور کہا کہ وہ اس آرٹیکل کے نفاذ کے بعد اعلیٰ عدالتوں کی غیر فعالیت میں ممکنہ طور پر فوجی عدالتوں اور ٹربیونلز کی راہ ہموار نہیں کر سکتیں۔ سینیٹر بابر وزیر داخلہ کے اس دعوے سےبھی متفق نہیں کہ فوج پس پردہ رہتے ہوئے شہری انتظامیہ کی مدد کرے گی۔ ان کا کہنا تھا: نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ تعینات فوجی 1997 کے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت اختیارات استعمال کریں گے۔ ‘اس کا مطلب ہے کہ اعلی عدالتوں کی نگرانی کے بغیر ان کے پاس تلاشیاں لینے اور لوگوں کو حراست میں لینے کے اختیارات حاصل ہیں’۔