|

وقتِ اشاعت :   August 1 – 2014

لاہور: ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل (ٹی آئی) نے سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کے ساتھ مختلف اداروں کے سربراہوں کی تقرریوں پر اعتراضات اُٹھائے ہیں۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے نواز شریف کو لکھے گئے ایک خط میں درخواست کی ہے کہ ان تمام غیرقانونی تقرریوں کو ختم کرنے کے فوری احکامات جاری کیے جائیں، جو سپریم کورٹ کے بارہ جون 2013ء کے فیصلے کی توہین کے ذیل میں آتے ہیں۔ خط میں کہا گیا ہے کہ سرکاری اداروں کے سربراہوں کا انتخاب فیڈرل کمیشن کے عمل سے گزارے بغیر یہ تمام تقرریاں کی گئی تھیں۔ اس سے قبل مئی کے دوران سرکاری محکموں میں مختلف عہدوں کے لیے اخبارات میں شایع ہونے والے ایک اشتہار پر بھی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اعتراض کیا تھا۔ اس کی جانب سے کہا گیا تھا کہ یہ طریقہ کار امتیازی اور غیر شفاف ہے اور بدعنوانی کو برداشت نہ کرنے کی اس پالیسی کے برخلاف ہے، جس کا اعلان مسلم لیگ ن نے 2013ء کے انتخابی منشور میں کیا تھا۔ ’’بدقسمتی سے وزارتِ خزانہ اور دیگر وزارتیں قانونی اصولوں کی پیروی کرنے کی زحمت نہیں کررہی ہیں اور بہت سی تقرریاں سرکاری اداروں کے سربراہوں کے لیے قائم فیڈرل کمیشن کو نظرانداز کرتے ہوئے کی گئی ہیں۔ یاد رہے کہ اس کمیشن کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق 17 جولائی 2013ء کو تشکیل دیا گیا تھا۔‘‘ فیڈرل کمیشن کے سربراہ عبدالرؤف چوہدری اور شمس قاسم لاکھا اور ڈاکٹر اعجاز نبی اس کے اراکین ہیں۔ اس کے علاوہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اس طرح کے عہدوں کے لیے اخبارات میں رنگین اشتہارات کی اشاعت پر رقم کے زیاں پر بھی وزیراعظم کی توجہ دلائی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’’مختلف عہدوں کے لیے لاکھوں روپے نصف صفحے کے رنگین اشتہارات پر ضایع کیے گئے، جن میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر، نیشنل بینک آف پاکستان کے صدر، ایس ای سی پی، پی این ایس سی اور کے پی ٹی کے چیئرمینوں، ٹی ڈی اے پی کے سی ای او، ایس ایس جی سی ایل، ایس این جی پی ایل، پاکستان اسٹیل ملز کے چیئرمینوں، پی ٹی وی کے ایم ڈی اور دیگر بہت سےعہدوں کے اشتہارات شامل ہیں۔‘‘ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق ’’13 جون کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے وزیراعظم کی منظوری کے ساتھ ایک نوٹیفکیشن جاری کرکے مختلف اداروں میں اہم عہدوں پر تقرریوں کو مستثنٰی قرار دیا تھا، جن میں نیشنل الیکٹرک ریگولیٹری اتھارٹی، آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی، پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی، ٹریڈ اینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی، اسٹیٹ لائف کارپوریشن، مسابقتی کمیشن آف پاکستان، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان، پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کونسل، پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی، متروکہ املاک بورڈ، انجینئرنگ ڈیویلپمنٹ بورڈ، پاکستان انڈسٹریل ٹیکنیکل اسسٹنس سینٹر، اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز ڈیویلپمنٹ اتھارٹی، اسٹیٹ سمینٹ کارپوریشن، نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی، پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی، لوک ورثہ، نیشنل ٹیلی کمیونیکیشنز کمیشن، ٹیلی کام فاؤنڈیشن، پاکستان بیت المال اور آلٹرنیٹیو انرجی ڈیویلپمنٹ بورڈ شامل ہیں۔‘‘ اس سلسلے میں بیس جون کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بھی اعلٰی سطح کی تقرریوں کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت کو اس سے روکا تھا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے ایسی تمام غیرقانونی تقرریوں کو ختم کرنے کے لیے وزیراعظم سے درخواست کی ہے اور کہا ہے کہ وہ سرکاری اداروں کے سربراہوں کی تقرری کے لیے قائم فیڈرل کمیشن کو یہ ہدایت دیں کہ حکومتی کنٹرول کے تحت آنے والے تمام کارپوریشنوں، ریگولیٹری اتھارٹیز، خود مختار اور نیم خودمختار اداروں میں کم سے کم مدت میں ایک خاص عمل سے گزارنے کے بعد تقرریاں کی جائیں۔