ایک مردانہ اجاراہ دار سماج میں خواتین کا دوسرے درجے کی مخلوق بن کر رہنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔لیکن اس اجارہ داری کو برقرار رکھنے لیے جب یہ صنف اوچھے ہتھکنڈوں پہ اتر آئے تو پھر بات قابلِ برداشت نہیں رہتی۔بالخصوص ایک ایسے سماج میں جہاں بظاہر خواتین کا احترام روایت کا درجہ رکھتا ہو، وہاں خواتین سے ہونے والی ایسی کوئی بھی زیادتی روایت سے بغاوت سمجھی جاتی ہے، جو سماج میں عمومی طور پر رائج نہ ہو۔ بلوچستان میں خواتین اور بالخصوص بچیوں پہ حال ہی میں تیزاب پھینکے جانے کے واقعات نہ صرف معروف سماجی روایت سے بغاوت ہیں، بلکہ ان کے ذریعے سماج کے چہرے کو بگاڑنے کی جو منظم و مذموم کوشش ہو رہی ہے، اسے اسی کے تسلسل میں دیکھا جا رہا ہے۔ بلوچ سماج کی سیکولر اور لبرل مزاج والی بات اب ایک کلیشے کی صور ت اختیار کر گئی ہے۔ لیکن یہاں اس کے دہرانے کا مقصد اسے ایک اور پس منظر میں دیکھنا بھی ہے۔ پاکستان کو جس طرح ایک مخصوص مذہب کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جاتا ہے، اِس سے اُس کے ایک مذہبی ملک کا تشخص ابھارا جاتا ہے، جو اب خاصا رائج اور مستحکم بھی ہو چکا ہے۔ اس مہابیانیے سے ہٹ کر سوچنے والے حلقے پاکستان میں ہمیشہ حاشیے پہ رہے ہیں۔ بالخصوص طالبانی طرزِ فکر کے جنم کے بعد سماج میں ان کے لیے برداشت مزید سکڑ چکی ہے۔ مذہبی جنونیت اب پاکستانی سماج کا لازمی خاصہ بنتی جا رہی ہے۔نصاب سے لے کر ابلاغِ عامہ کے تمام تر ذرائع اس فکر کی آبیاری میں ہم قدم ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ رائے عامہ پہ وسیع سطح پہ اثر ہونے والے پاکستان کے تمام بڑے ٹیلی وژن چینلزماہِ رمضان میں ،پرائم ٹائم میں شدت پسند مولویوں کی پذیرائی کرتے رہے۔ ایک طرف طالبان کے خلاف آپریشن کی خبریں اور دوسری جانب طالبانی طرزِ فکر کے ہمدردوں کی بھرپور پذیرائی، یہ سب مل کر ملک کی کٹرمذہبی شناخت کو مضبوط بناتے رہے۔ اس کے عین برعکس بلوچ سماج میں مذہبی شدت پسند ی تاریخی طور پر کوئی جواز نہیں رکھتی۔ یہاں نہ صرف غیر مسلم وسیع طور پر آباد رہی ہے بلکہ ذکری نام کا ایک فرقہ سالہا سال سے آباد چلا آرہا ہے، جو عمومی مذہبی عبادات پر’ ذکر‘نام کی ایک مخصوص عبادت کو ترجیح دیتا ہے۔ اسی طرح پردہ سماج میں بطور رسم تو موجود رہا ہے، لیکن اس کا پس منظر کبھی بھی مذہبی نہیں رہا۔ بلوچ فطرتاً خانہ بدوش رہے ہیں، خانہ بدوشی میں روایتی پردے کا کبھی کوئی تصورہی نہیں رہا۔ آج بھی بلوچوں کی وسیع آبادی دیہات میں رہائش پذیر ہے، جہاں مرد و خواتین مل جل کر روزمرہ کے کام انجام دیتے ہیں۔ اس میں روایتی پردے کا تصور ممکن ہی نہیں۔ اس کے باوجود (ماسوائے جاگیرداری پس منظر رکھنے والے چند اضلاع کے) کبھی خواتین سے بدسلوکی کا کوئی واقع شاذ ہی سننے میں آتا ہے۔ ایسے میں جب ایک شہر میں کسی انجان مذہبی تنظیم کی جانب سے بچیوں کی تعلیم پہ پابندی اور چند نامعلوم افراد کے ہاتھوں کچھ بچیاں بازاروں میں شاپنگ کرتے ہوئے تیزاب گردی کا نشانہ بنتی ہیں، تو اس بابت شکوک کے سلسلے کا دراز ہونا کچھ ایسا غیر فطری نہیں لگتا۔ پہلے مئی میں پنجگور میں بچیوں کی تعلیم کو یہ کہہ کر بند کر دیا گیا کہ یہ غیر مذہبی ہے۔ بچیوں کو صرف دینی تعلیم حاصل کرنے تک محدد رہنا چاہیے۔ پنجگور کے نجی تعلیمی اداروں کو ملنے والی دھمکیوں کے بعد گذشتہ دو ماہ سے یہ سکول مسلسل بند ہیں۔ جب کہ اس دوران بچیوں کے سرکاری سکول بھی حفظِ ماتقدم کے طور پر بند کر دئیے گئے۔ اُدھر خضدار کی ایک چھوٹی سی تحصیل نال کے ایک چھوٹے سے گاؤں گریشہ سے خبر آئی کہ وہاں کے گرلزپرائمری سکول کی چار سو بچیوں کو پڑھانے کے لیے کوئی استاد میسر نہیں۔ کچھ عرصہ یہ بچیاں ،لڑکوں کے اسکول میں جاتی رہیں، لیکن اب کوئی دو ماہ قبل وہاں کے پرنسپل نے بھی ان کو یہ کہہ کر آنے سے منع کر دیا کہ وہ بچیوں کو تعلیم نہیں دے سکتے۔ یہ بچیاں بالآخر اپنے خاندان کے ورثا سمیت خضدار پریس کلب تک پہنچیں اور ایک پریس کانفرنس کے ذریعے یہ دُہائی پہنچائی۔ ابھی اس پریس کانفرنس کی خبر کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ کوئٹہ کے علاقے سریاب میں ایک شاپنگ سینٹر میں شاپنگ کرتی ہوئی خواتین پہ چند نقاب پوش موٹر سائیکل سواروں نے تیزاب پھینک دیا۔ چار خواتین جھلس گئیں۔ تین کی حالت بہتر بتائی گئی۔اس کے اگلے ہی روز مستونگ میں آٹھویں اور نویں کلاس کی دو بچیوں اور ماں کے ساتھ شاپنگ سے واپس آتی دو سگی بہنوں پہ تیزاب پھینک دیا گیا۔یہ دونوں شدید متاثر ہوئیں۔لیکن دونوں کے حوصلے بلند ہیں۔ ان کے والد ایک نہایت پڑھے لکھے بلوچ خاندان سے ہیں۔ انھوں نے نہ صرف نا معلوم افراد کے خلاف اس کا مقدمہ درج کروایا بلکہ میڈیا میں شدت پسند مذہبی عناصر کے خلاف کھل کر بھی بولے۔ ان کا خیال ہے کہ بلوچ علاقوں میں شدت پسند مذہبی عناصر کی ریاستی سرپرستی کی جار ہی ہے۔ اور ایک غیر متعلقہ جنگ میں عام آدمی کو گھسیٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ درحقیقت یہ وہ نقطہ ہے ، جو آج اس سماج کے ہر فرد کے ذہن میں تو واضح ہے لیکن اس پہ بات کرتے ہوئے سماج کا ہر فرداس خوف سے کتراتا ہے کہ کہیں اگلا نشانہ وہ نہ بن جائے۔حالانکہ طاقت کا یہ اظہار مردانہ نہیں بلکہ شدید نامردی کی علامت ہے۔ یہ کیسی مردانگی ہے جو نہتی خواتین اور بچیوں پہ تیزاب پھینک کر فرارہوجاتی ہے۔یہ محض اندھی طاقت کا دکھاوا ہے، یہ اس خوف کا اظہار ہے جو اس سماج کی بڑھوتری اور ارتقا سے بعض قوتوں کو لاحق ہو گیا ہے۔ یہ فریقِ مخالف کی واضح بوکھلاہٹ ہے۔طاقت کا اظہار دراصل جہالت کا ایک اور نمونہ ہے۔ دلیل اور مکالمہ کی جگہ اندھی طاقت، نامردی اور خوف کا واضح اظہار ہوتی ہے۔ لیکن اس سب سے کہیں زیادہ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ ان کی اصل طاقت ان کی قوت نہیں بلکہ سماج کے ذمہ دار افراد اور حلقوں کی بے عملی ہے۔ ایسی بہیمانہ حرکتوں پہ سیاسی جماعتیں اور نام نہاد سول سوسائٹی محض اخباری بیانات تک محدود ہیں، پورا سماج اجتماعی فکر سے محروم نظر آتا ہے۔ ٹھیکوں اور ٹینڈروں والی سرکارِ نامدار سے کیا گلہ کہ سماج کے مسائل کا حل اس کے دائرہ کار میں ہی نہیں آتا۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے ہمارا سماج اجتماعی طور پر ایک قبرستان کی صورت اختیار کرتا جار ہاہے۔ سچ یہ ہے کہ ہم خواہ الفاظ کا کیسا ہی گورکھ دھندا کیوں نہ کر لیں متاثرہ بچیوں اور ان کے خاندان کی اذیت کا ذرہ برابر احساس نہیں کر سکتے۔بلوچستان میں تو کسی شرمین عبید چنائے کا تصور بھی محال ہے کہ جو ایسی متاثرہ بچیوں کے لیے ’سیونگ فیس‘ کا کام ہی کر لے۔ ان کی بنائی ہوئی عالمی شہرت یافتہ ڈاکیومنٹری کے حقیقی ہیرو ڈاکٹر جواد کو تو بلوچستان میں داخلے کی ہی اجازت نہ ہوگی،عین ممکن ہے کہ انھیں شناختی کارڈ دیکھ کر ہی مار دیا جائے۔کیا ستم ظریفی ہے کہ ایک سلگتے ہوئے موضوع کو دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنا کر پاکستان کے لیے پہلا آسکر لانے والی خاتون کو، انھی صفحات پہ ہمارے ایک ہم عصر نے روایتی تحقیر کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا،’ملک کا نام دنیا میں بدنام کر کے آسکر جیت لینا کوئی بڑا کارنامہ نہیں‘۔ یہ کمال ہے کہ نہتی عورتوں پہ جب تیزاب پھینکا جاتا ہے تو اس سے ملک کانام بدنام نہیں ہوتا، لیکن جب کوئی انہیں بچانے والوں کو ہیرو بنا کے پیش کرتا ہے کہ تو اس سے ملک کی بدنامی ہو جاتی ہے۔ یہ واضح ہے کہ بیماری کا علاج تبھی ممکن ہے جب اول تو اسے بیماری تسلیم کیا جائے اور دوم اس کی درست تشخیص ہو۔ بلوچستان کی بچیوں ، ہماری مستقبل کی ماؤں کے خلاف بڑھتی ہوئی شدت پسندی کو لازم ہے کہ اول ایک ناسور تسلیم کیا جائے، اور پھر معاشرے کا اجتماعی ضمیر اس پہ مل جل کر سوچے کہ اس ناسور کا حل کیونکر ممکن ہے۔ وگرنہ آئندہ کسی بھی بچی کے چہرے پہ پھینکا جانے والا تیزاب درحقیقت سماج کی اجتماعی دانش کے چہرے پہ پھینکا جائے گا، جس کی صورت پہلے ہی خاصی مسخ ہو چکی ہے۔ اس کی بروقت صورت گری نہ کی گئی تو یہ بدبودار سڑاند میں تبدیل ہو جائے گی۔