اطلاعات ہیں کہ حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ عمران خان سے براہ راست مذاکرات کرے گی ۔ اس کے لئے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں راجہ ظفر الحق ‘ اسحاق ڈار‘ سعد رفیق اور پرویزرشید شامل ہوں گے۔ حکومت نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ وہ جمہوری رابطوں کو بھی استعمال کرے گی ۔ اس میں گورنر کے پی کے اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق بھی شامل ہیں ۔ ابھی تک عمران خان اور اسکی پارٹی کی جانب سے اس تجویز پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے ۔ ممکن ہے کہ عمران خان اور اس کی پارٹی مذاکرات کی پیش کش کو رد کر دیں کیونکہ گزشتہ کئی دنوں سے عمران خان کا لہجہ تلخ تر ہوتا جا رہا ہے ۔ ویسے بھی عمران خان ایک گہرے اور منجھے ہوئے سیاستدان نہیں ہیں وہ سیاست میں نو وارد ہیں ۔ سیاست میں انہوں نے کسی کے ماتحت کام نہیں کیا ہے ۔ اور سیاست میں داخل ہوتے ہی انہوں نے سیاست میں بھی کپتانی کی ہے ۔ لہذا یہ قرین قیاس ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات کو یکسر مسترد کردیں گے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ عمران خان اوراس کی پارٹی مڈ ٹرم یا وسط مدتی انتخابات کروانا چاہتی ہے ۔ ان کا یہ یقین ہے کہ اگر مڈ ٹرم انتخابات ہوئے تو عمران خان وزیراعظم بن جائیں گے اور قومی اسمبلی میں ان کو اکثریت ملنے کا امکان ہے ۔ اس صورت حال میں حکومت عمران خان کا یہ مطالبہ تسلیم نہیں کرے گی کہ فوری طورپر وسط مدتی انتخابات کرائے جائیں اور سیاست کو عمران خان کی خدمت میں پیش کریں ۔ یہ تو نا ممکن نظر آتا ہے کہ حکومت عمران خان کو چند ایک مزید سیٹیں پیش کرے جس کو عمران خان قبول نہیں کریں گے بلکہ اس کو ایک بڑا اسکینڈل بھی بنا سکتے ہیں کہ ان کو چند سیٹوں کی رشوت کی پیش کش کی گئی ۔ ایسی صورت میں حکومت کے عمران خان کے ساتھ براہ راست مذاکرات بے معنی ہوں گے۔ اس کا مقصد وقت کا ضیاع ہے لہذا حکومت کو چائیے کہ وہ عمران خان کو پر امن طورپر اپنا ’’ ملین مارچ‘‘ کرنے دیں ان کی انا کو تسکین پہنچائیں کہ وہ دنیا کے بہت بڑے بڑے لیڈروں کی طرح ایک بڑا اجتماع کرسکتے ہیں ۔ اس کے بعد ہی ان سے مذاکرات کیے جائیں ۔ ’’ ملین مارچ‘‘ سے قبل مذاکرات بے سود ثابت ہوں گے۔ عمران خان نے یہ اعلان کردیا ہے کہ وہ جلسے کے بعد گھر واپس نہیں جائیں گے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسلام آباد میں دھرنا دیں گے۔ اور حکومت کو دباؤ میں رکھیں گے کہ وہ وسط مدتی انتخابات کرائے ۔ ویسے بھی دھرنے کی سیاست اس ملک میں کامیاب نہیں ہوتی ۔ وجہ یہ ہے کہ لوگ چند دنوں میں فیصلے کی توقع رکھتے ہیں جو اس بار ممکن نہیں ہے ۔ البتہ امکان اس بات کا ضرور ہے کہ ملک میں افراتفری کا عمل زیادہ تیز تر ہوجائے جس سے عمران خان خود پشیمان ہوں گے۔