یہ سال کا وہ وقت ہے جب ہم سب مزیدار کھانوں کی بجائے آم کی لطیف مٹھاس سے لطف اندوز ہونا پسند کرتے ہیں- ناشتے، دوپہر اور رات کے کھانوں میں بھی مختلف اقسام کی لذیذ چٹنیوں اور اچار کا اضافہ ہو جاتا ہے- بقول مشہور اور لاجواب مرزا غالب کے۔
‘آم کسے پسند نہ ہوگا سوائے گدھوں کے!’-
آم، جسے پھلوں کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے کوئی چار ہزار سال پہلے دریافت کیا گیا- اکبر اعظم کی داستان حیات ‘عینِ اکبری’ میں آم کے بارے میں لکھتے ہیں۔
“خسرو کے ایک شعر سے پتا چلتا ہے کہ ایرانی اس پھل کو ‘نغزاک’ کہتے ہیں- رنگ، خوشبو اور ذائقے میں اس کا کوئی ثانی نہیں اور توران و ایران کے بعض خوش خوراک اسے خربوزے اور انگوروں پر فوقیت دیتے ہیں-
آم ہرے، پیلے، سرخ، چتکبرے اور کھٹے میٹھے ہوتے ہیں- اس کے خوشبودار، خوش رنگ پھول انگور کے پھول سے مشابہ ہوتے ہیں اور بہار کے موسم میں کھلتے ہیں- اس کے پتے ظاہر ہونے کے ایک ماہ بعد اس میں کچے پھل آ جاتے ہیں جنہیں اچار وغیرہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے- عام طور پر پھل کو تیار ہونے سے پہلے ہی توڑ کر ایک مخصوص طریقے سے محفوظ کرلیا جاتا ہے-
اس طریقہ کار سے تیار کیے گئے آم زیادہ لذیذ ہوتے ہیں اور برسات میں کھانے کے لئے مناسب- بعض درختوں میں پھل سالہا سال لگتے ہیں لیکن ایسا کم ہی دیکھنے میں آیا ہے- آم انڈیا میں ہر جگہ نظر آتے ہیں خصوصاً بنگال، گجرات، مالوہ، خاندیش اور دکن میں- پنجاب میں آم کم پائے جاتے ہیں بہرحال جب سے میجسٹی نے لاہور کو اپنا دارالحکومت بنایا یہاں آموں کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے- ایک درخت کم از کم چار سال تک پھل دیتا ہے- درخت کے گرد دودھ اور گڑ کا شیرہ بھی ڈالا جاتا ہے جس سے پھل مزید میٹھا ہوتا ہے-”
قدیم انڈیا میں، آم کا ایک عام انسان کی زندگی کے مختلف ادوار (جنم سے مرن تک) میں خاصہ عمل دخل رہتا تھا، یہی وجہ ہے کہ پھلوں کے بادشاہ کا نام ‘آم’ رکھا گیا- چناچہ پرانے وقتوں کے لوگوں کی دلچسپ تصور اور حکمت کی بدولت، پھلوں کا بادشاہ عام انسان کی غذا بن گیا-
آم سے مشابہ پھل کے نمونے ہڑپہ اور موئن جو دڑو سے دریافت ہوئے ہیں اس کے علاوہ ابن بطوطہ اور ابن ہنکال کے سفر ناموں میں بھی آم کے درختوں اور پھل کا ذکر ہے- کہا جاتا ہے کہ کوئی ڈیڑھ ہزار سال پہلے ایک چائنیز سیاح ہوان سانگ، آم کو قدیم انڈیا سے باہر کی دنیا میں لے کر گیا-
مغل شہنشاہوں کو پھل پیچھے مشرقی ایشیا میں چھوٹ جانے کا بڑا افسوس تھا اور غیر ملکی یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ شہنشاہ اور ان کے درباری ایک خطیر حصّہ اس پھل پر خرچ کرتے ہیں- پورا دربار پھل کی سیاسی زبان پر مہارت رکھتا تھا-
اکبر کی حکومت کے مطابق دربھنگہ، مشرقی انڈیا میں آم کے ایک لاکھ درخت لگائے گئے- کہا جاتا ہے کہ جہانگیر اور شاہ جہاں کو ہندوستانی آم مرغوب تھے، اس حوالے سے جہانگیر کا یہ قول مشہور ہے۔
‘کابل کے پھل میٹھے ہونے کے باوجود ان میں سے ایک بھی میرے مطابق آم کے ذائقے کا ہمسر نہیں ہے’۔
شاہ جہاں کو آم بے حد مرغوب تھے کہا جاتا ہے کہ دکن میں ایک بار بادشاہ نے ولی عہد پر ان کے پسندیدہ درخت کے آم کھانے کا الزام لگایا اوراس موسم کی پوری فصل کٹوا دی-
برصغیر پاک و ہند میں سب سے رسیلے آم پائے جاتے ہیں- میرا یہ دعویٰ برحق ہے کہ برصغیر کے سوا دنیا کے کسی اور حصّے میں اس سے بہتر آم نہیں ہو سکتے- ہاں، دوسرے خطّوں میں خوش شکل آم تو ضرور اگتے ہیں مگر دیسی آم جیسا ذائقہ ان میں نہیں پایا جاتا-
جو بھی دیسی جولائی کے مہینے میں وطن آتا یا آتی ہے، تو اپنی پسند کے لنگڑا، سندھڑی، انور رٹول، چونسہ، دسہری، ہمساگر، ثمر بہشت سے ضرور لطف اندوز ہوتے ہیں-
جب بھی مجھے آم کے پکوان بنانے کا موقع ملتا ہے تو میں عابدہ آنٹی کی ریسیپیز سے استفادہ کرتی ہوں، جو اپنے اچار اور چٹنیوں کا کریڈٹ اپنی والدہ اور بہن کو دیتی ہیں- یہ فیملی ریسیپی کسی بھی کھانے کا سواد بڑھانے کے لئے بہترین ہیں- تو میرے کچن سے آپ کی خدمت میں پیش ہے:
کھٹی چٹنی
کچے آم (کیریاں ) – ڈھائی عدد
باریک کٹا ہوا لہسن – ½ یا ¾ کپ
باریک کٹی ہوئی ہری مرچیں – پانچ عدد
سرکہ – چھ سے آٹھ اونس
تیل – دو سے چار اونس
میتھی دانہ – ⅔ کھانے کا چمچ
کلونجی – ⅔ کھانے کا چمچ
لال مرچ پاؤڈر – ایک چائے کا چمچ
کٹی ہوئی لال مرچ – ایک چائے کا چمچ
ہلدی پاؤڈر – ایک چائے کا چمچ ہموار کیا ہوا
نمک – حسب ذائقہ
طریقۂ کار
کیریوں کو چھیل کر اور بیج نکال لیں، کیریاں، لہسن اور ہری مرچ چوپر میں (الگ الگ) موٹا پیس لیں- سرکہ، تیل اور مصالحہ ڈال کر اچھی طرح مکس کریں-
چٹنی تیار ہے- ایک مرتبان میں نکال کر ریفریجریٹر میں رکھ لیں، اسے فریز بھی کیا جا سکتا ہے-
میٹھی چٹنی
کیریاں – ڈھائی عدد
نمک – ڈیڑھ چائے کا چمچ
پانی – آدھا کپ
شکر – بارہ سے چودہ اونس
لال مرچ- ½ چائے کا چمچ
کدوکش کیا ہوا ناریل – دو کھانے کا چمچ
کالی مرچ پاؤڈر – ¼ چائے کا چمچ
کٹا ہوا اخروٹ – آدھا کپ
چھلے ہوئے باریک کٹے بادام – آدھا کپ
کشمش – آدھ کپ
سرکہ – آدھ کپ
ترکیب
ایک برتن میں پانی گرم کریں اور اس میں کیریوں کے سلائس نمک کے ساتھ ڈال دیں- کیریاں نرم ہوجانے پر اس میں شکر ڈال کر چند منٹ پکائیں-
اب اس میں لال مرچ، کالی مرچ، سرکہ، ناریل اور میوے ڈال کر چند منٹ مزید پکائیں- تھوڑی دیر ٹھنڈا ہونے دیں- مزیدار چٹنی تیار ہے- ریفریجریٹر میں محفوظ بھی کر سکتے ہیں-
آم کا اچار
تیل – ایک کپ
لہسن – آدھا کپ
کالی رائی – چار چائے کے چمچ بھر کر
کٹی ہوئی لال مرچ- دو چائے کے چمچ
کیریاں (کچے آم) چھلکے کے ساتھ – ڈھائی عدد
نمک – دو کھانے کے چمچ
سرکہ – ½ کپ
طریقۂ کار
ایک برتن میں تیل اور لہسن ڈال کر گرم کریں اور ساتھ ہی رائی، کالی مرچ، نمک، سرکہ اور آم کے ٹکڑوں کا بھی اضافہ کر دیں-
پندرہ سے بیس منٹ پکائیں، پھر ایک مرتبان میں نکال کر ٹھنڈا کر لیں-
تین سے چار دن روم ٹمپریچر پر رکھیں تاکہ اچار بننے کا عمل مکمل ہو سکے-
اچار کھانے کے لئے تیار ہے-
آم کی فیرنی
دودھ – ½ یا ¾ گیلن
خشک دودھ – دو سے چار اونس
چاول کا آٹا- پانچ کھانے کے چمچ
پکے ہوئے آم- چار سے پانچ عدد
کیوڑہ اور عرق گلاب – چند قطرے
شکر – آٹھ سے بارہ اونس
چھوٹی الائچی – چھ سے آٹھ عدد
زعفران – تھوڑا سا
ترکیب
ایک برتن میں دودھ اور خشک دودھ ڈال کر اتنا پکائیں کہ دو تہائی رہ جائے- ¼ کپ ٹھنڈے دودھ میں چاول کا آٹا مکس کریں اور ابلتے ہوئے دودھ میں شامل کردیں، چمچ برابر چلاتے رہیں-
اب اس میں عرق گلاب، کیوڑہ، شکر اور الائچی شامل کر کے پکائیں-
اس کے بعد ڈش میں نکال لیں اور ٹھنڈا ہونے دیں- اب فیرنی میں اوپر سے تین پیوری کیے ہوئے آم اور باقی آم کے ٹکڑے اوپر سے ڈال کر مکس کریں-
ریفریجریٹر میں رکھ کر ٹھنڈا کر لیں، پیش کرتے وقت میوہ جات سے سجاوٹ کر لیں-
ترجمہ: ناہید اسرار
انگلش میں پڑھیں