|

وقتِ اشاعت :   August 2 – 2014

اسلام آباد : مناسب قانونی فریم ورک کی عدم موجودگی کے باعث آن لائن ہراساں کرنے، سائبر حملوں یا نجی مواد افشا کرنے والے بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ حال ہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ (آئی ایچ سی) نے اپنی سابقہ منگیتر کی تصاویر اپ لوڈ کرنے کے الزام میں گرفتار ایک نوجوان کو ضمانت پر رہا کردیا، کیونکہ پراسیکیوشن اسے ملزم ثابت کرنے کے لیے شواہد پیش کرنے میں ناکام رہا تھا۔ عدالت سے موصول اطلاعات کے مطابق ملزم راولپنڈی کی رہائشی ایک لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوگیا اور ان دونوں کی منگنی لگ بھگ چار سال چلی۔ ملزم کے بھائی کے مطابق منگنی دونوں خاندانوں کے لیے خوشگوار ثابت ہوئی مگر رواں برس مارچ میں یہ تعلق ٹوٹ گیا۔ ملزم کے بھائی نے ڈان کو بتایا کہ یہ منگنی اس وقت ٹوٹی جب اس لڑکی کی چند نازیبا تصاویر سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر اپ لوڈ کردی گئیں۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم سرکل میں درج کرائی گئی شکایت میں لڑکی نے تصاویر اپ لوڈ کرنے کا الزام اپنے سابقہ منگیتر پر لگایا۔ اپنی درخواست میں اس لڑکی نے شکایت کی کہ وہ لڑکا اسے سوشل میڈیا پر بلیک میل کررہا تھا اور اس نے یہ تصاویر اس کے ایک کزن کو بھی ارسال کی تھیں۔ اس لڑکی کا مزید کہنا تھا کہ ملزم نے اس کے فیس بک اکاﺅنٹ کو ہیک کرکے خود اس کے بجائے رشتے داروں اور دوستوں سے بات چیت کرتا رہا۔ ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل نے ملزم نوجوان کو گیارہ جون کو حراست میں لیا اور اس کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔ ایف آئی آر میں لکھا گیا تھا “تحقیقات کے دوران یہ بات ظاہر ہوئی ہے کہ ملزم نے شکایت کنندہ کی اجازت کے بغیر اس کی فیس بک پروفائل تک رسائی حاصل کی اور غیرمہذب کمنٹس پوسٹ کیے، جبکہ اس نے فیس بک پیج پر لڑکی کی نازیبا تصاویر بھی اپ لوڈ کیں”۔ پاکستان میں سائبرکرائم سے نمٹنے کا کوئی مخصوص قانون موجود نہیں، خاص طور پر سائبر اسٹاکنگ کے حوالے سے، اس قانون یا آرڈنینس کی عدم موجودگی کے باعث ایف آئی اے متعدد معاملات کو ہاتھ لگانے سے قاصر رہتی ہے۔ حکومتی عہدیداران پہلے 2007ء میں پیش کیے گئے الیکٹرونکس کرائم آرڈنینس پر گزارہ کررہے تھے، تاہم نومبر 2009ء میں اس کی مدت ختم ہونے کے بعد سے پرانے الیکٹرونک ٹرانزیکشن آرڈنینس 2002ء (ای ٹی او) کو استعمال کرنا پڑرہا ہے، اس قانون کے تحت سائبرکرائم پر زیادہ سے زیادہ سزا سات سال قید سنائی جاسکتی ہے۔ یہ قانون دستاویزات، ریکارڈ، اطلاعات اور کمیونیکشن کے دیگر ذرائع کے الیکٹرونکس ٹرانزیکشن پر لاگو ہوتا ہے، تاہم اس میں مخصوص معاملات جیسے آن لائن ہراساں کیا جانا یا نازیبا تصاویر و وڈیوز کی اشاعت کے حوالے سے کچھ بھی صراحت موجود نہیں۔ ای ٹی او کا مسودہ اس وقت تیار ہوا تھا جب انفارمیشن ٹیکنالوجی موجودہ دور کی مقابلے میں اس قدر ترقی یافتہ نہیں تھی۔ آئی ٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قانون کو ہیکرز یا اسلام آباد کے نوجوان جیسے سائبر ملزمان کے خلاف استعمال نہیں کیا جاسکتا، جس نے اپنی منگیتر کی نجی زندگی کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ اگرچہ نوجوان کے خلاف مقدمہ بدستور عدالت میں زیرسماعت ہے، مگر مناسب قوانین کی عدم موجودگی کی بناء پر اسے سخت سزا ملنے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس نورالحق قریشی نے ناکافی شواہد کی بناء پر اس کی ضمانت کی درخواست منظور کرلی تھی، اور عام عدالتی حقیقت بھی یہی ہے کہ ضمانتیں ان مقدمات میں ہی دی جاتی ہے جس میں عدالت کو محسوس ہو کہ ملزم کے خلاف شواہد بہت کمزور ہیں۔ انٹرنیٹ سروسز پروائیڈر ایسوسی ایشن آف پاکستان (آئی ایس پی اے کے) کے کنویئنر وہاج السراج کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا ویب سائٹس کے غلط استعمال کے حوالے سے کوئی قوانین موجود نہیں۔ انہوں نے کہا “قانون نافذ کرنے والے ادارے تاحال ملزمان کے خلاف موجودہ عہد کے تقاضے پورا نہ کر پانے والے قانون ای ٹی او اور پاکستان پینل کوڈ کی مخصوص شقوں پر انحصار کررہے ہیں۔ مختلف مقدمات میں لوگوں خاص طور پر خواتین کے لیے اپنے وقار اور پرائیویسی کا تحفظ کرپانا کافی مشکل ہوجاتا ہے”۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نئے سائبر کرائم بل پر کام کررہی ہے “مگر وہ ابھی تک پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا گیا اور نہ ہی وفاقی کابینہ میں اس پر بحث ہوئی ہے”۔ وزارت اطلاعات و نشریات کے ترجمان صغیر وٹو نے بھی تسلیم کیا کہ اس وقت نازیبا مواد کی روک تھام کے لیے قوانین موجود نہیں جس سے عام افراد خاص طور پر خواتین کی زندگیاں اور عزت خطرے کی زد میں ہیں۔ انہیں نے کہا کہ سائبر کرائمز بل 2014ء کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور عید کے بعد اسے وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کردیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا “یہ بل انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزیر انوشہ رحمان نے تیار کیا ہے اور انہوں نے اس قانون میں خواتین کے تحفظ کے لیے مناسب شقیں شامل کی ہیں”۔