|

وقتِ اشاعت :   August 4 – 2014

مغربی میڈیا اور اسرائیل دونوں حماس کو ٹارگٹ بنائے ہوئے ہیں کہ سارے فتنے کی جڑ حماس ہے ۔ ایک سال قبل حماس نے غزہ کا اقتدار چھوڑتے ہوئے حکومت متحدہ فلسطینی حکومت کے حوالے کی تھی ۔ وہ بھی غیر سیاسی ٹیکنوکریٹ کی حکومت ‘ حماس سیاسی اور انتظامی طورپر بیک گراؤنڈ میں ہے ۔ اس کے باوجود پوری دنیا میں حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم کے طورپر پیش کیا جارہا ہے ۔ حالانکہ اس کا فلسطینی حکومت خصوصاً غزہ کی انتظامیہ سے کوئی تعلق نہیں ۔ حماس فلسطینی حقوق کی مداخلت کی ایک نشانی ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ امریکا ‘ برطانیہ اور فرانس کو حماس پر غصہ ہے اور وہ اپنا غصہ عام شہریوں کا قتل عام کرکے نکال رہے ہیں ۔ اس سیاست میں بچوں اور خواتین کا کیا قصور ہے ۔ ان کی نسل کشی کیوں کی جارہی ہے؟ اس کی ایک وجہ ہوسکتی ہے کہ حماس کو عوام میں پذیرائی حاصل ہے اور اسرائیل اس کی سزا شہری آبادی کو دے رہی ہے۔ گزشتہ 26دنوں سے ہزاروں ٹن گولے برسائے جارہے ہیں ۔ غزہ کا مکمل محاصر کیا ہوا ہے ۔ مصر بھی اسرائیل کی طرف سے دفاع کراسنگ کا محاصرہ جاری رکھے ہوئے ہے ۔ غزہ کے لئے ہر طرح کے کھانے کی اشیاء، ضرورت کی اشیاء ‘ پانی، بجلی اور ادویات لے جانے پر پابندی ہے ۔ فلسطینیوں کا یہ جائز مطالبہ ہے کہ جنگ بندی کے ساتھ غزہ کا محاصرہ ختم کیاجائے ۔ 80ہزار اسرائیلی افواج نے ایک چھوٹے سے خطے کو چاروں طرف سے گھیرا ہوا ہے ۔ ہر جانب سے شہری علاقوں ‘ مساجد ‘ اسکولوں ‘ اسپتالوں اور اقوام متحدہ کے مہاجر کیمپوں کو گولہ باری کا نشانہ بنایا ہوا ہے ۔ فلسطینیوں نے مجبوراً ٹنل بنائے ہیں تاکہ کھانے پینے اور ضرورت کی اشیاء ان ٹنلوں کے ذریعے اسمگل کریں ۔ اسرائیل کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ ان ٹنلوں کو اسرائیل پر حملوں کے لئے استعمال کیا جارہا ہے ۔ دراصل ان ٹنلوں پر اسرائیلی حملوں کا مقصد غزہ کو محاصرہ کی حالت میں رکھنا ہے اور اسرائیل کا یہ فیصلہ کہ فلسطینی اس کو ایک یہودی ریاست تسلیم کریں ۔ یہ نا ممکن ہے ۔ اسرائیل کا قیام ہی ناجائز ہے ۔ اس کے قیام میں برطانیہ کا بڑا کردار تھا ۔ امریکا اور فرانس نے برطانیہ کی مدد کی ۔ فلسطین سے 80لاکھ مہاجرین کو اپنی زمینوں سے بے دخل کیا اور ان کی سرزمین کو برطانیہ ‘ فرانس اور امریکا کی مدد سے قبضہ کر لیا اور اسرائیل کی ریاست قائم کی جو آج بھی دنیا بھر میں تنہا ہے ۔ بعض ممالک خصوصاً مغربی اور مسلمان ملک حماس کے ’’ سیاسی اسلام ‘‘ سے خو فزدہ ہیں اور درپردہ اسرائیل کی حمایت کررہے ہیں ۔ بلکہ فلسطینیوں کی نسل کشی کی حمایت کررہے ہیں ۔ فلسطین کے مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ 80لاکھ فلسطینیوں کو دوبارہ اپنے وطن واپس آنے دیا جائے اور ان کے تمام حقوق محفوظ ہوں اس میں دنیا بھر کے یہودی بھی فلسطین میں رہیں ۔ ایک سیکولر ریاست میں رہیں ۔ یہودی ریاست کی فلسطین میں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔