|

وقتِ اشاعت :   August 6 – 2014

abid mir’’ریاست ہو گی ماں کے جیسی‘‘کی گردان سنتے سنتے ہمارا لڑکپن ، جوانی میں ڈھلا۔ اب جوانی ڈھلنے کو آئی لیکن اس ریاست کو دیکھنے کو آنکھیں ترس گئیں جو اپنے شہریوں کے لیے ماں کے جیسی ہو۔فیض صاحب نے جس داغ داغ اجالے اور شب گزیدہ سحر کا رونا، سن سینتالیس میں رویا تھا، اُس نے گویا انتقاماً مستقل ایسے ڈیرے ڈال دئیے کہ جانے کا نام ہی نہیں لیتی۔ ہر موڑ پہ گماں ہوتا ہے کہ نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی آ پہنچی ، پر ابھی سانس بھی نہیں لے پاتے پھر’چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی ‘کی صدا آ پہنچتی ہے۔ پاکستان میں ایک بار پھر انقلاب کا غلغلہ ہے تو کہیں آزادی کی صدائیں۔۔۔خبرکے نام پہ تماشے کی ڈگڈگی پہ ناچتے بریکنگ نیو ز والے بھوکے میڈیا کو چودہ اگست تک ’خوراک‘ کا خاصا وافر ذخیرہ مہیا ہو گیا ہے۔شام گئے پرائم ٹائم میں سجنے والی دکانوں اور ان کے دکان داروں کے پاس ان دنوں بیچنے کے لیے بہت کچھ ہے۔کم ازکم اس انقلاب کے آنے تک انھیں موضوع کی کم یابی کا معاملہ درپیش نہیں ہوگا۔ساتھ میں بیک گراؤنڈ میوزک کے بطور آئی ڈی پیز کا رونا بھی چلتا رہے گا، کہ اسکرین پھیکی نہ لگے۔ آئی ڈی پیز کی اصطلاح اب لگتا ہے کہ پاکستان میں ایک خاص علاقے سے مخصوص ہو کے رہ گئی ہے۔ ذرا دو ہزار پانچ کا تباہ کن زلزلہ یاد کیجیے۔ ہزاروں اموات،اور لاکھوں متاثر ہوئے۔ یہ لاکھوں متاثرین آئی ڈی پیز کہلائے۔ حکومت سے لے کر، مخیر حضرات اور ادارے ان کی مدد کو بروقت پہنچے۔ حتیٰ کہ عالمی اداروں کی فوری رسائی کو بھی ممکن بنایا گیا۔اس سانحے کے کوئی دس ماہ بعد بلوچستان میں ایک تباہ کن آپریشن کے نتیجے میں ڈیرہ بگٹی اور کوہلو سے ہزاروں متاثرین بے گھر ہوئے۔ یہ لوگ اپنے قریبی اضلاع جعفرآباد، نصیرآباد، سندھ کے قریبی علاقے کشمور ، جیکب آباد اور پنجاب سے ملحقہ ڈیرہ غازی خان کی طرف مراجعت کر گئے۔میں ان دنوں کوئٹہ کے ایک اخبار کے لیے فیچر لکھا کرتا تھا۔ ان متاثرین کی حالتِ زار پہ فیچر لکھنے کے لیے میں بلوچستان کے سرحدی اضلاع میں مقیم ان آئی ڈی پیز کے گھروں تک گیا۔ ان کی حالتِ زار میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی اور کیمرے میں محفوظ کی۔ ایک اَسی سالہ مری بزرگ کا جملہ میں آج بھی نہیں بھولتا جس نے اپنے جھونپڑوں کے سامنے کھڑے ہو کرایک ہاتھ میں اپنا بوسیدہ شناختی کارڈ لہراتے ہوئے ٹوٹی پھوٹی اردو میں کہا تھا، ’حکومت کا ترجمان بولتا ہے، اِدھر کوہلو کا کوئی آدمی نہیں، سب یہاں کا لوکل ہے، اس کو ہمارا شناختی کارڈ دکھاؤ، بولو یہ ایک نہیں ہمارے ساتھ بیس ہزار لوگ اُدھر سے دربدر ہوا ہے، یہ سب تم کو نظر نہیں آتا!‘واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے ان متاثرین کے لیے خوراک کی پیشکش کے جواب میں اُس وقت کے حکومتی ترجمان نے کہا تھا کہ کوئی مری ، بگٹی متاثر نہیں ہوا، ان اضلاع میں جو مری بگٹی موجود ہیں، وہ یہاں کے مقامی باشندے ہیں۔ یہ کوئی دو ہزار چھ کی بات ہے۔ گذشتہ آٹھ برسوں میں پاکستان میں بظاہر بہت کچھ بدل گیا۔ پر بلوچستان کے لیے لگتا ہے کچھ نہیں بدلا۔ اور اگر بدلا تو فقط اتنا کہ پہلے مرکزی میڈیا میں یہاں کے دکھوں پہ کوئی ایک آدھ خبر آ جاتی تھی، اب وہ بھی چپ ہو گئی ہے۔ مثلاً کوئی ایک ماہ سے مکران کے کچھ علاقوں میں وسیع پیمانے پہ باغیوں کے خلاف آپریشن جاری ہے۔درجنوں دیہات سے سیکڑوں لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں، کئی ایک لاپتہ ہو چکے ہیں۔ کیا آپ نے اس بابت کسی اخبار میں کوئی سنگل کالم خبر، کسی ٹی وی چینل پہ کوئی ایک ٹِکر ملاحظہ کیا ہے؟ ہم نہیں جانتے کہ میڈیا کی یہ بے حسی دانستہ ہے یا نادانستہ، اس کا سبب بے رحم مارکیٹ اکانومی ہے یا ملکی سلامتی کے نام پہ جاری کردہ کوئی ضابطہ اخلاق۔۔۔ لیکن اس غیر پیشہ ورانہ رویے پہ اگر کوئی سوال اٹھتا یا تحفظات کا اظہار ہوتا ہے، تو اسے یک طرفہ یا مبنی برتعصب مؤقف قرار دینا کس قدر درست ہوگا، اس بابت میڈیا کوخود ہی اپنی اداؤں پہ غور کرنا ہوگا۔ پاک فوج کی جانب سے وزیرستان میں دہشت گردوں (یا دہشت گردی )کے خلاف کیے جانے والا آپریشن اور اس پہ سیاسی جماعتوں سمیت تمام سماجی طبقات کا صاد کرنا برحق، نیز وہاں کے عام متاثرین المعروف آئی ڈی پیز کے لیے ہر سطح پہ کی جانے والی کاوشیں بھی لائقِ صدتحسین، لیکن یہ سوال اپنی جگہ کہ آخر ایک ہی ملک کے دو حصوں میں ایک ہی الزام کے تحت ہونے والی کارروائیوں کے متاثرین کے لیے رویے اس قدر مختلف کیوں؟ آئینی اوراصولی طور پر ریاست کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اُس کے خلاف برسرپیکار قوتوں کے ساتھ آ ہنی ہاتھوں سے نمٹے۔ ریاست اپنے باغیوں کے خلاف ہر قسم کی آئینی کارروائیوں کا حق محفوظ رکھتی ہے۔گو کہ وزیرستان اور بلوچستان میں ریاست سے برسرپیکار افراد یا گروہوں کا پس منظرو نقطہ نظر یکسر مختلف ہے۔ لیکن ریاست انھیں بطور باغی ہی دیکھتی ہے تو اسے یہ حق پہنچتا ہے کہ گولی کا جواب وہ گولی سے دے، اور چاہے تو ان کے خلاف بھرپور کارروائی کرے۔ لیکن بلوچستان میں حکومت اور ریاستی فورسز نے اس بابت طریقہ کار اور نقطہ نظر یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ بلوچستان کے مقامی اخبارات اور یہاں سے شائع ہونے والے ملکی اخبارات کے ایڈیشن کے بیک پیج پہ گوریلا تنظیمو ں کے لیے یک کالمی اسپیس مختص ہے، جس میں روزانہ کی بنیاد پہ ’ذمہ داری قبول کر لی‘ کی سرخی کے ساتھ ان کی کارروائیاں شائع ہوتی ہیں، جن کا آخری فقرہ ہوتا ہے ’سرکاری ذرائع نے ان خبروں کی تردید کی ہے۔‘ اس سے قبل سرکاری ذرائع کی جانب سے ان کی ’کارکردگی‘ کی خبریں اس سے دگنے اسپیس پہ شائع ہوتی تھیں، لیکن اب اس طرح کی سرکاری کارروائیوں کی کوئی خبر نہ تو سرکاری ذرائع سے جاری ہوتی ہے، نہ کوئی مقامی صحافی خبر جاری کرنے کی ہمت رکھتا ہے۔ رہا مرکزی دھارے کا میڈیا تو اس کے لیے، بلوچستان کے ایک دور دراز کونے میں ، پہاڑوں کے دامن میں کیا ہورہا ہے، یہ جاننا اس کا دردِ سر ہے ہی نہیں۔ حکومت سے پوچھیں تو ان کا رٹا رٹایا ایک ہی فقرہ ہمہ وقت حاضر ہے کہ ،’بلوچستان میں کوئی آپریشن نہیں ہو رہا، فورسز معمول کی کاروائیاں کر رہی ہیں۔‘ اس معمو ل کی کارروائی میں وہ سب آجاتا ہے جو کراچی سے لے کرشمالی وزیرستان تک میں ہو رہا ہے۔ عملاً صورت حال ہے یہ کہ تربت کے نواح میں واقع شاپک سے لے کر شاہرگ تک، جو کہ مزاحمت کاروں کے گڑھ سمجھے جاتے تھے، کوئی ایک ماہ سے فورسز کے گھیرے میں ہیں۔ یہاں کی مقامی آبادی کو اطلاع کیے بغیر وہاں کارروائی شروع کی گئی۔ جس کے باعث لوگ نہ صرف دربدری کے عذاب میں مبتلا ہوئے بلکہ مالی طور پر بھی تباہ حال ہوئے۔ مکران کے علاقے میں لوگوں کے معاش کا ایک بڑا ذریعہ کھجور کے باغات ہیں۔ بالخصوص قصبات میں لگ بھگ ہر دوسرا فرد کھجور کے چھوٹے موٹے باغ کا مالک ہے یا اس کی کاشت سے وابستہ ہے۔ اور جولائی تا اگست کھجور کی فصل پک کر تیار ہونے کا موسم ہے۔ یہ کارروائیاں اسی دوران شروع ہوئیں، نتیجتاً لوگ بے گھر ہوئے اور ساتھ ہی اپنی تیار فصلوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان علاقوں کے اچھے خاصے زمیندار اس وقت تربت اور کراچی میں آئی ڈی پیز بن کر رہنے پہ مجبور ہیں۔ کچھ لوگوں نے رشتے داروں کے ہاں پناہ لے لی، لیکن اکثریت بے سروسامانی کے عالم میں ہے۔ ریاست، سرکار، سیاسی جماعتیں، سول سوسائٹی، میڈیا، کوئی ان کا پرسانِ حال نہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ اس معاملے کا ’بلیک آؤٹ‘ ہونا ہے۔ ملک کے اکثریتی عوام کو پتہ ہی نہیں کہ ملک کے دوسرے حصے میں واقع ایک کونے میں کیا ہو رہا ہے! طنز، تحقیرو طعنہ زنی سے قطع نظر اس وقت صرف یہ خواہش ہے کہ بلوچستان میں فورسز کے آپریشن کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے افراد کو بھی آئی ڈی پیز میں ہی شمار کیا جائے۔ ان کے لیے بھی اسی جوش اور جذبے کا اظہار کیا جائے جو وزیرستان کے آپریشن متاثرین کے لیے کیا جارہا ہے۔ ریاست ماں نہیں بنتی تو اسے سوتیلی ماں بھی نہیں بننا چاہیے۔ وگرنہ اس ناروائی کے نتیجے میں آج سڑکوں پہ دربدر کوئی متاثرہ شخص کل اگر پہاڑ پہ چڑھ جاتا ہے تو اس کی بغاوت کی بجائے، ہماری حب الوطنی پہ سوالیہ نشان لگنا چاہیے۔