شام ہوتے ہی پاکستانی چینلز پر مختلف اینکرز اپنی اپنی دکان سجا لیتے ہیں مگر گھما پھرا کے اس سب کا موضوع اور ان کے شو کے کردار ایک ہی ہوتے ہیں۔
سارا دن ملک میں جو مرضی مارا ماری ہو یا قیامت برپا ہو جائے مگر مجال ہے چینلز پر کوئی جوں رینگے۔ اُن کی ہیڈلائنز کا آغاز انہیں چند خبروں سے ہوتا ہے جن کے پسِ منظر میں بجتا جنگی طبل بظاہر مغالطے میں ڈال دیتا ہے کہ شاید جنگ شروع ہونے والی ہے۔
ان شوز پر نمودار ہونے والے چہروں میں سے کئی ایسے ہیں جنہیں آپ صرف ٹی وی سکرین پر ہی دیکھتے ہیں اور یہ پارلیمان میں نہیں دکھائی دیتے کیونکہ انہیں کسی نے ووٹ نہیں دیا۔
انسانی کمیشن آف پاکستان کی چیئر پرسن زہرہ یوسف نے گذشتہ دنوں ایک پریس ریلیز کے ذریعے اس معاملے پر توجہ دلائی اور بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ سب حقیقی مسائل سے چشم پوشی کے مترادف قرار دیا۔
’ہمارا مقصد تھا کہ ہم حکومت اور اپوزیشن کی جماعتوں اور میڈیا کی توجہ دلائیں کہ جو اہم ایشوز ہیں ان پر وہ توجہ دیں۔ اہم ایشوز ہیں وہ جنگ ہے جو ملک کے اندر ہے، دہشت گردی ہے، عدم رواداری ہے، اقلیتوں کے ساتھ بدسلوکی ہے یہ ہیں۔‘
زہرہ یوسف نے کہا کہ حقیقی مسائل کی بجائے ’ایک حکومت جو منتخب ہو کر آئی ہے چاہے اس کی کارکردگی جیسی بھی ہو اس کو ہٹانے کی کوشش کی جائے اور حکومت کی توجہ اپنی حکومت بچانا ہے وہ بھی ایسے لوگوں سے جن کی خاص کر طاہر القادری جیسی جماعت جس کی کوئی اہمیت نہیں ہے پاکستان میں۔‘
ٹی وی چینلز ایک طرف پاکستانی اخبارات پر بھی یہی صورتحال حاوی نظر آتی ہے جس میں ہر اخبار کے صفحۂ اول پر سیاسی صورتحال کے بارے میں مختلف پیشین گوئیاں، سیاسی قلابازیاں اور بیانات کی بھرمار نظر آتی ہے۔
بی بی سی کے سینیئر نامہ نگار وسعت اللہ خان نے اس صورتحال کے بارے میں کہا یہ سارا معاملہ نیوز چینلز کے 24 گھنٹے کے بلیٹن کا پیٹ بھرنے کا ہے اور یہ نیا نہیں ہے۔
’میڈیا کو روزانہ ایسی خبر چاہیے جسے وہ کم از کم 24 گھنٹے پیٹ سکے۔ اب اُس کی زد میں کوئی بھی آ جائے۔ آج عمران خان اور طاہر القادری ہیں کل کوئی اور ہو گا۔‘
میڈیا میں مثبت بات کرنے والوں کی کمی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وسعت اللہ نے کہا کہ ’پچھلے دنوں جیو کے معاملے میں جو کچھ ہوا۔ باقی میڈیا نے جس کردار کا مظاہرہ کیا اس کے بعد سب ننگے ہو کر سامنے آ گئے اور چونکہ سب ننگے ہیں لہذا کسی کو ننگ پن کا احساس ہی نہیں ہے جس نے کپڑے پہنے ہیں اُس کی جانب انگلیاں اٹھ رہی ہیں وہ شاید odd محسوس کر رہا ہو گا۔‘
انٹرنیٹ اور نئے میڈیمز جیسا کہ سوشل میڈیا پر حاوی رہا جس پر تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ نواز کے حامی افراد مختلف الفاظ کا استعمال کر کے بے جا ٹویٹس کرتے ایک لاحاصل بے نتیجہ بحث میں سرگرداں مارے مارے پھرتے ہیں۔
ان ٹویٹس کا بظاہر کوئی مقصد نہیں کیونکہ ان کا مقصد رائے کا اظہار کرنا نہیں بلکہ ٹرینڈ کرنا ہے۔ آپ کسی بھی ٹرینڈ کو دیکھ لیں تو شاید سر کھپانے کے بعد ہزاروں کمنٹس اور ٹویٹس میں سے ایک کام کی بات سامنے آئے گی جس کی زبان اس قابل ہو کہ اسے پڑھا بھی جا سکے۔
سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ صورتحال ایسی کیوں ہے؟
مبصرین پاکستانی میڈیا کو سیاسی بحران کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں
وسعت اللہ نے اس بارے میں سوال کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے صرف ایک بات بتائیں جب تک اخبارات کی باگ ڈور ایسے خاندانوں یا میڈیا ہاؤسز کے ہاتھ میں تھی جن کا اوڑھنا بچھونا ہی صحافت تھا، تب تک تو یہ غدر نہیں تھا۔‘
’مسئلہ یہ ہے کہ جب سنار بھی لائسنس لے لے گا، سگریٹ بیچنے والا بھی لائسنس لے لے گا، کالا دھن سفید کرنے والے کو بھی لائسنس مل جائے گا جس کا دور دور تک تعلق نہیں ہے نہ قلم سے نہ کاغذ سے تو اس نے صابن کی صنعت نہ ڈالی میڈیا کی صنعت ڈال لی۔ اُس کو تو منافع کمانا ہے اب منافعے کے لیے اسے ننگا بھی ناچنا پڑے تو کیا مسئلہ کیا ہے؟‘
اب 14 اگست کو یا اس کے بعد عمران خان اپنے بقول بادشاہت کا خاتمہ کرتے ہیں یا چوہدری برادران طاہر القادری کے بقول ان کے ساتھ انقلاب لاتے ہیں اس سب سے قطع نظر میڈیا کا کاروبار اس مندے کے دور میں ایک بار پھر چمکا ہے تو اس بہتی گنگا میں کون بے وقوف ہے جو ہاتھ نہ دھوئے؟