بعض سیاسی عناصر اس بات پر بضد ہیں کہ موجودہ حکومت کا تختہ ہر قیمت پر الٹنا چائیے ۔ عمران کی پارٹی وزیراعظم سے استعفیٰ طلب کررہی ہے اور نئے انتخابات کا مطالبہ کررہی ہے ۔ جبکہ طاہر القادری صاحب انقلاب کی باتیں کررہے ہیں ۔ کسی دوسری قابل ذکر پارٹی نے عمران خان کا ساتھ نہیں دیا اور اب وہ اپنی جنگ تنہا لڑیں گے۔ کم از کم ایک مظاہرے یا ایک دھرنے سے حکومت کا تختہ الٹنا مشکل نظر آتا ہے ۔ صرف عمران خان کے حامی ہی اس دھرنے میں شرکت کریں گے۔ باقی سیاسی کارکن تماش بین ہوں گے اور وہ صرف مقابلہ دیکھیں گے۔ پاکستان میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی احتجاج، دھرنا یا جلوس سے حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا ہو ۔سب سے طاقتور تحریک پی این اے کی بھٹو صاحب کے خلاف تھی ۔ جنرل ضیاء الحق نے ا س وقت شب خون مارا جب حکومت اور پی این اے کے درمیان معاہدہ ہوگیا تھا۔ فوج نے جنرل ضیاء الحق کی سربراہی میں اقتدار پر قبضہ کر لیا ۔ تین ماہ کی طویل تحریک جس میں خونی جلسہ اور جلوس شامل ہے ۔ حکومت سے اقتدار نہیں چھینی جا سکی ۔ صرف فوجی مداخلت کے بعد حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا ۔ تاہم دوسرے واقعات میں بھی فوج نے سابقہ حکومتوں کواقتدار سے محروم کردیا تھا ۔ جلوس ، دھرنے اور جلسوں سے کسی بھی حکومت کو نہیں ہٹایا گیا ۔ اس بات پر عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے تیور خطر ناک نظر آتے ہیں ۔ ان کو معلوم ہے کہ وہ اپنی طاقت سے حکومت کو ہٹا نہیں سکتے ۔ پھر وہ کیا چاہتے ہیں ؟ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف ملک میں گڑ بڑ چاہتے ہیں تاکہ ملک کے اندر ان کی تحریکوں سے انار کی پھیلے ، بے چینی پھیلے اور عوام دشمن قوتیں اس سے فائدہ اٹھائیں ۔ عمران خان تو وزیراعظم بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں ۔ گزشتہ انتخابات کے نتائج سے ان کو مایوسی ہوئی کہ وہ ملک کے وزیراعظم نہ بن سکے ۔ اب وہ دوبارہ اور جلد انتخابات چاہتے ہیں تاکہ وہ نواز شریف کی جگہ ملک کے وزیراعظم بن سکیں ۔ جہاں تک ڈاکٹر طاہرالقادری کا تعلق ہے ۔ وہ وزیراعظم یا صدر بننے کی خواہش مند نظر نہیں آتے ۔ بلکہ ان کو انقلاب کاشوق ہے ۔ بہر حال دونوں حضرات ملک میں خانہ جنگی، عدم استحکام پیداکرنے کی صلاحیت ضرور رکھتے ہیں اس لئے حکومت دوسرے پارٹیوں سے امداد طلب کررہی ہے کہ عمران خان اور قادری کا مقابلہ کیاجاسکے ۔