چھتہ: حفیظ اللہ کی عمر سو برس سے زائد بتائی جاتی ہے، لیکن وہ اس عمر میں بھی روزانہ کام پر جاتے ہیں۔
چھڑی کی مدد سے اپنے جسم کا بوجھ سہارتے ہوئے سفید داڑھی والا یہ سو برس کا بزرگ پاکستان کی انتہائی خوبصورت وادی نیلم میں اپنے کھیتوں پر روزانہ ہل چلاتا ہے، جس طرح وہ برطانوی راج کے دوران چلایا کرتا تھا۔
حفیظ اللہ کے معمولات زندگی میں کوئی فرق نہیں آیا اور وہ نہایت آزادی اور سکون سے اپنے کام سرانجام دیتے ہیں۔
لیکن اس خبر کا کیا کیا جائے جس کے مطابق اقوام متحدہ کی جانب سے حال ہی میں پاکستان کو ان بدترین ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جہاں بزرگوں کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ساٹھ برس سے زائد عمر کے حامل افراد عدم تحفظ کا شکار ہیں اور وہ آزادی سے کوئی کام نہیں کر سکتے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حفیظ اللہ کی طرح ایسے درجنوں بزرگ آزاد جموں و کشمیر کے دور دراز علاقوں میں بستے ہیں، جن کی عمریں ایک صدی پر محیط ہیں اور وہ اپنی سادہ پہاڑی زندگی کے تمام کام بخوبی سر انجام دیتے ہیں۔
ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں واقع وادیٔ نیلم میں بہتے دو سو کلومیٹر طویل بل کھاتے دریا کے ساتھ ساتھ بے شمار خوبصورت مناظر بھی موجود ہیں۔
برف پوش پہاڑوں میں گھرے وادیٔ نیلم کے گاؤں چھتہ میں ایسے بہت سے مرد و خواتین موجود ہیں، جن کی عمریں سو برس یا اُس سے بھی زائد ہیں۔
حفیظ اللہ کے مطابق اُن کی عمر 132 برس ہے، اس لحاظ سے وہ دنیا کے سب سے طویل العمر مرد ہیں، تاہم پاکستان نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا ) کے مطابق حفیظ اللہ کی عمر 107 برس ہے۔
مضبوط جسم اور پتھریلے چہرے کے حامل حفیظ اللہ کا کہنا ہے کہ ان کی طویل عمر کا راز صحت بخش غذا ہے، جس میں وہ زیادہ تر تازہ پھل اور سبزیاں لیتے ہیں اور کبھی کبھار گوشت بھی استعمال کرتے ہیں۔
حفیظ اللہ ہندوستان کی تقسیم کے بھی عینی شاہد ہیں، تاہم ان کے مطابق انہیں جو چیز یاد ہے وہ اپنی جوانی کے دور کی غربت ہے۔
برفباری کے دنوں میں خوراک کو محفوط کرنے کے طریقے کے حوالے سے حفیظ اللہ کا کہنا تھا کہ ‘ہم زیادہ تر سبزیاں اور دالیں کھاتے ہیں، سردیوں کے موسم میں ہم سبزیوں کو زمین میں دفن کر دیتے ہیں اور گرمیوں کے موسم میں ان کو نکال کر استعمال کرتے ہیں’۔
حفیظ اللہ کی تین بیویوں کا انتقال ہو چکا ہے لیکن ان کی چوتھی بیوی نے ہر ممکن طور پر ان کا زندگی کا سہارا بننے کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیا ہے۔
ستر سالہ اسیم جان کا کہنا ہے کہ ‘میں اُن کے لیے وہ سب کچھ کروں گی جو میں کر سکتی ہوں، میں ان کی ہر چیز کا خیال رکھتی ہوں’۔
اسیم جان کے مطابق ’میں نے ان کی بہت خدمت کی ہے اور اس کا اجر مجھے خدا دے گا‘۔
چھتہ اور قریبی گاؤں سطح سمندر سے تقریباً دو ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہیں، یہی وجہ ہے کہ برفباری کے موسم میں چھ ماہ کے لیے ان علاقوں کا دیگر علاقوں سے رابطہ منقطع ہو جاتا ہے۔
انتہائی خوبصورت تفریحی مقام ہونے کے باوجود وادیٔ نیلم میں اب بھی کاشتکاری کے پرانے اور روایتی طریقے رائج ہیں۔
یہاں کوئی مارکیٹ یا فاسٹ فوڈ کے مراکز نہیں ہیں اور دیہاتیوں کو اپنے تمام کام خود کرنے پڑتے ہیں۔
گاؤں کے سربراہ پچھتر سالہ عبدالخالق کا کہنا ہے کہ ‘یہاں کسان آج بھی کھیتوں میں کام کرنے کے لیے بیلوں کا استعمال کرتے ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ مرد و خواتین صبح چار بجے کے قریب بیدار ہو جاتے ہیں اور سورج غروب ہونے تک کام کرتے رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہاں کے لوگوں کی صحت بہت شاندار ہے۔
نادرا کے ایک سینیئر افسر محمد شاپال خان کا کہنا ہے کہ اب تک ساٹھ فیصد آبادی کا اندراج وفاقی ڈیٹا میں کیا چکا ہے، تاہم ہر گاؤں میں متعدد ایسے افراد موجود ہیں جن کی عمریں نوّے یا سو برس کی ہیں۔
دوسری جانب عالمی ادراۂ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں مردوں کی اوسط عمر چونسٹھ برس جبکہ خواتین کی چھیاسٹھ برس ہے۔
جبکہ اقوام متحدہ کے گلوبل ایج واچ انڈیکس نے پاکستان کا نام ان تین بدترین ممالک میں شامل کر رکھا ہے، جہاں بزرگ افراد کے لیے زندگی گزارنا انتہائی مشکل ہے۔
تاہم حفیظ اللہ اور اس جیسے دیگر کئی بزرگ اپنی اچھی صحت کے ساتھ تمام کام بہتر انداز میں سر انجام دے کر عالمی ادارے کی اس رپورٹ کی نفی کرتے نظر آتے ہیں۔