|

وقتِ اشاعت :   August 11 – 2014

افغانستان میں دونوں صدارتی امیدواروں کے درمیان معاہدہ ہوگیا ہے کہ وہ ایک مضبوط اور مشترکہ حکومت بنائیں گے اور ملک کے اندر بے یقینی کو ختم کریں گے ان دونوں صدارتی امیدواروں کے درمیان معاہدہ امریکی سیکرٹری خارجہ جان کیری کی موجودگی میں ہوا جن کی شروع دن سے یہ کوشش تھی کہ دونوں صدارتی امیدواروں کے درمیان تصادم نہ ہو ،تلخی نہ ہو تاکہ امریکا ایک پر سکون انداز سے اپنی افواج افغانستان سے نکال لے ۔ ابھی تک ووٹوں کی گنتی جاری ہے جو جیتے گا وہ صدر افغانستان ہوگا ۔ اور دوسرا صدارتی امیدوار انتظامیہ کا سربراہ یا CHIEF EXECUTIVE بنے گا ۔ ہمارے ملک میں سابق صدر پرویز مشرف CHIEF EXECUTIVE رہ چکے ہیں ۔ امریکی سیکرٹری خارجہ اگلی ناٹو سربراہ کانفرنس سے قبل افغانستان میں ایک نئی حکومت دیکھنا چاہتے ہیں ان دونوں صدارتی رہنماؤں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکا اور افغانستان کے ساتھ سیکورٹی معاہدے کی توثیق کریں گے۔ جس سے عدم استحکام اور بے یقینی کی صورت حال ختم ہوجائے گی ۔ اور انتظامیہ یا حکومت یکسوئی سے توجہ طالبان کے مسئلے پر دے گی ۔ ویسے بھی طالبان کیلئے یہ صورت حال موافق نہیں ہے ۔ اتنی بڑی آبادی اب ان کی مخالف ہوگی ۔ یعنی عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی کے حمایتی طالبان کی مخالفت کریں گے۔ جو طالبان کے لئے نیک شگون نہیں ہے ۔ ممکن ہے کہ بڑی تعداد میں طالبان کے حمایتی ان کی حمایت ترک کردیں اور نئی حکومت کو یہ موقع دیں کہ وہ افغانوں کے بنیادی مسائل کا حل تلاش کریں اور ملک کو خوشحالی کی طرف گامزن کریں ۔ اگر طالبان نئی حکومت کی وجہ سے کمزور ہوں گے اور ان کی عوامی حمایت میں کمی آئے گی تو یہ پاکستان کے لئے بھی خوش آئند ہوسکتا ہے جہاں پر طالبان کے خلاف ایک زبردست فوجی کارروائی جاری ہے ۔ زیادہ طالبان جنگجو راہ فرار اختیار کر چکے ہیں ۔ پاکستانی افواج کو کسی قسم کی بڑی مزاحمت کا سامنا کرنا نہیں پڑ رہا ہے ۔ توقع ہے فوجی آپریشن کے علاقے میں توسیع ہوگی اور ملک سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہوگا ۔ اس میں افغانستان کا کردار اہم ہے ۔ افغانستان اور اس کی نئی حکومت پاکستان سے تعاون کرتی ہے اور اپنے سرحدوں کو دہشت گردوں کے لئے بند کرتی ہے تو یہ یقینی ہے کہ دہشت گردی کو پورے خطے میں شکست ہوگی ۔ان میں یہ بھی ضروری ہے کہ افغانستان اپنی سر زمین دہشت گردوں کو استعمال نہ کرنے دے ۔ کابل فوری طورپر ملا فضل اللہ اور اس کے تمام ساتھیوں کو گرفتار کرکے پاکستان کے حوالے کرے ۔ اس کے بدلے میں پاکستان بھی افغان طالبان کے خلاف اسی قسم کی کارروائیاں کر سکتاہے جس سے پورے خطے میں امن ایک حقیقی امر ہوگا۔ بہر حال پاکستانی مبصرین نئی افغان لیڈرشپ کی کارکردگی پر نگاہ رکھیں گے امید ہے کہ نئی افغان لیڈر شپ کا رویہ پڑوسیوں کے لئے منفی نہیں ہوگا ۔ وہ مثبت انداز میں اپنا کردار ادا کرکے پورے خطے میں امن کے ضامن ہوں گے اور افغانوں کی خوشحالی کو یقینی بنائیں گے۔ جب خطے میں امن ہوگا تو بیرونی افواج جلد سے جلد انخلاء کریں گے۔