|

وقتِ اشاعت :   August 11 – 2014

mamaآج میر غوث بخش بزنجو کی برسی ہے ان کا انتقال 11اگست 1988میں ہوا 11اگست وہی دن ہے کہ جب برطانیہ نے بلوچستان کو آزادی عطا کی اور تمام معاہدات پر عمل کیا غوث بخش بزنجو اسی آزادی کے روح رواں تھے بلوچ پارلیمان خصوصاً دونوں ایوان کے مشترکہ اجلاس میں ان کا خطاب تاریخی تھا وہ قائد ایوان تھے اس وقت بھی وہ ایک زیرک سیاستدان تھے اور ساتھ ہی پاکستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات کے خواہاں بھی تھے تاہم خان قلات نے مارچ 1948ء میں ان تمام دستاویزات پر دستخط کئے جس سے بلوچستان پاکستان کا حصہ بن گیا مرحوم خان قلات کا یہ دعویٰ تھا کہ انہوں نے دستخط اپنی مرضی سے نہیں بلکہ دباؤ کی وجہ سے کئے تاہم بزنجو صاحب زمینی حقائق سے بخوبی واقف تھے اور انہوں نے پاکستان کو دل سے تسلیم کیا اور ملک میں سیاست میں حصہ لینا دوبارہ شروع کیا 1955ء میں انہوں نے خان عبدالغفار خان سے ملکر پاکستان نیشنل پارٹی بنائی اسی دوران عوامی لیگ میں اختلافات کی بنیاد پر مولانا بھاشانی اور اس کے ساتھیوں نے عوامی لیگ سے علیحدگی اختیار کی بعد میں انہوں نے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ اس نئی پارٹی میں شامل ہونا چاہتے ہیں چنانچہ نئی پارٹی کا کنونشن ڈھاکہ میں طلب کیا اور نیشنل عوامی پارٹی کی بنیادڈالی بنگال کے تمام ترقی پسند اس پارٹی میں شامل ہوگئے ڈھاکہ میں میر غوث بخش بزنجو کو زبردست پذیرائی ملی اور وہ نئی پارٹی میں سب سے زیادہ چمکنے والے ستارے تھے وجہ یہ تھی کہ وہ ترقی پسند سیاست کے روح رواں تھے ایک آدھ سال بعد نئی پارٹی نے مسلم لیگ اور ری پبلکن پارٹی پر وخت ڈال دیا اور سب کو مجبورکیا کہ وہ ون یونٹ کیخلاف اور تاریخی صوبوں کی بحالی کے حق میں ووٹ ڈالیں سوائے ایک صحافی م شین کے پورے ایوان نے اس کے حق میں ووٹ ڈالا اس میں نواب خیر بخش مری سردار عطاء اللہ مینگل جی ایم سید میر احمدنواز بگٹی نے اہم کردار ادا کیا نواب بگٹی اس وقت قومی اسمبلی کے رکن تھے بلکہ مرکزی وزیر تھے یہ نیشنل عوامی پارٹی کی بڑی کامیابی تھی اس کو روکنے کیلئے ملک میں ایوب خان نے مارشل لاء لگا دیا اور ون یونٹ کو مزید دس سال ملک پر مسلط رکھا مارشل لاء لگنے کے بعد سب سے زیادہ نیپ کے لوگ گرفتار ہوئے اس میں تمام بڑے لیڈر خصوصاً غوث بخش بزنجو شامل تھے ایوب خان کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی ون یونٹ کا خاتمہ ہوگیا 14فروری کو لیاری سے لاکھوں انسانوں کا جلوس نکلا جو قائد اعظم کے مزار پر ختم ہوا جہاں پر بزنجو صاحب بڑے مقرر تھے اس جلسے میں انہوں نے بلوچ نوجوانوں کو مبارکباد دی کہ آج انہوں نے ون یونٹ توڑ دیا لاکھوں کا جلسہ کر کے تاریخی صوبے بحال کروائے جنرل یحییٰ خان نے ملک میں باقاعدہ انتخابات کروانے ون یونٹ توڑنے اور تاریخی صوبے بحال کرنے کا اعلان کیا ون یونٹ کے تحریک کے سب سے بڑے روح رواں میر غوث بخش بزنجو تھے 1970ء کے انتخابات کی منصوبہ بندی میر غوث بخش بزنجو سردار عطاء اللہ مینگل نواب اکبر بگٹی اور نواب خیر بخش مری کے علاوہ دوسرے رہنماؤں نے کی بلوچستان میں نیشنل پارٹی نے پانچ قومی اسمبلی کی نشستوں سے چار جیت لیں صوبائی اسمبلی کی 20نشستوں سے 10نشستیں حاصل کیں دو نشستیں نواب بگٹی کے گروپ نے حاصل کیں جمعیت علماء اسلام کو تین سیٹیں ملیں اور پی پی پی کو صرف ایک آخر کار نیشنل عوامی پارٹی نے بلوچستان کی تاریخ میں پہلی جمہوری اور منتخب حکومت بنائی جس کے سربراہ سردار عطاء اللہ مینگل اور گورنر میر غوث بخش بزنجو تھے بھٹو نے سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت کو برطرف کردیا اور بلوچستان میں مسلح جدوجہد شروع ہوگئی جو بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد ختم ہوگئی اس پورے بحران میں بزنجو کا کردار نمایاں رہا وہ سب کی رہنمائی کرتے رہے تاوقتیکہ کہ ملک میں انہوں نے سیاسی جدوجہد کا طریقہ اپنایا آج بہت سے لوگ اور پارٹیاں حقوق کی جنگ میں سیاسی جدوجہد کو اولیت دیتی ہیں اور مسلح جدوجہد پر یقین نہیں رکھتیں اس سیاسی جدوجہد کے روح رواں میر غوث بخش بزنجو جن کو عقیدت سے لوگ بابائے بلوچستان کے نام سے پکارتے تھے۔