|

وقتِ اشاعت :   August 11 – 2014

abid mirبلوچستان کے بے انتہا المیوں میں سے ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ماضی میں یہاں دانش بے تحاشا تھی مگر دانش مند کم تھے، آج دانش ور وں کی بہتات ہے اور دانش مفقود ہوتی جا رہی ہے۔بقول شخصے ، دانش وری کے نام پر ’دانش خوری‘ ہو رہی ہے(ویسے بلوچی میں ’ور‘ کے معنی کھانا ہیں، گویا دانش وری بلوچی میں دانش خوری ہی کہلائے گی) ۔بلوچستان میں عمومی طور پر جس شخص کے نام یا تعارف میں دانش ور آ جائے ، اس سے دانش مندی کی توقع عبث ہی جانیئے گا۔ یہ کوئی مجموعی صورت حال تو نہیں لیکن ایسے دانش مندوں کی مثال اُس ایک مچھلی جیسی ہے، جس کی صحبت کا اثر سارے جوہڑ پہ پڑتا ہے۔ لیکن اسی جوہڑ سے پھر کنول کا پھول بھی اُگ آتا ہے، جو اس سارے منظر نامے کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔گوکہ جوہڑ سے جڑے ہونے کے باعث وہ توجہ اور اہمیت حاصل نہیں کرپاتا جس کا وہ مستحق ہوتا ہے۔ ہمارے ڈاکٹر حمید بلوچ کو آپ ایسا ہی کنول سمجھ لیں۔ بلوچستان کی اجتماعی دانش کے جوہڑ کنارے اُگا یہ پھول بلاشبہ ہماری اعلیٰ ترین فوک دانش کا عکاس ہے۔ہمارے ہاں عام طور پر کسی دانش ور کی نشانیوں میں سے اہم ترین یہ ہے کہ آپ اُس سے گلے نہیں مل سکتے، کیونکہ ان کی گردن اس قدر اکڑی ہوئی ہوتی ہے کہ وہ کسی حجت،کسی محبت کے سامنے جھک ہی نہیں پاتی۔دوم یہ کہ اُس کی تحریر ماضی و معروض کے رد سے شروع ہو گی اور تاریخ کا دھارا بدل دینے والی اپنی تحریروں کے دعوؤں پہ ختم ہو گی۔ ایسے میں اگر کوئی شخص اپنے پُر مغز علمی کام کو حقیر کہہ کر قارئین کے سامنے پیش کرے، اور اپنے دوستوں سے لے کر مداحوں سے جھک کر یوں گلے ملے جیسے اُن سے برسوں کا یارانہ ہو ،تو جان لیجیے یہ شخص بھلے موجودہ زمانے میں ہو، لیکن روح اس میں کسی قدیم زمانے کی آباد ہے۔ برطانیہ سے باٹنی میں پی ایچ ڈی کی اعلیٰ ترین ڈگری لینے والے ہمارے ڈاکٹر حمید بلوچ کا تمام تر علمی سرمایہ تاریخ سے متعلق ہے۔ پھول پتیوں سے تاریخ جیسے خشک موضوع کی جانب کیسے آنا ہوا؟ اس کا قصہ وہ یوں بتاتے ہیں کہ لندن میں دورانِ قیام جب انہیں برٹش میوزیم کے انڈین سیکشن میں کام کرنے کا موقع ملا، تو وہاں انہوں نے وہ نایاب نسخے دیکھے جو برطانوی عمل داروں نے اس خطے میں حکومت کے دوران یہاں سے متعلق لکھے تھے۔ یہ وہ نایاب نسخے تھے، جن کا اب تک یہاں کہیں تذکرہ نہیں ہوا۔یہیں سے انھیں ان نسخوں کو جمع کرنے کا خیال آیا۔ اس میں ایک امر یہ مانع تھا کہ برٹش میوزیم لائبریری میں مطالعے کی تو اجازت ہے، لیکن آپ نہ تو کوئی کتاب اپنے ساتھ لے جا سکتے ہیں نہ ہی اس کی فوٹو اسٹیٹ کاپی لے سکتے ہیں۔ اب ان کے پاس سوائے اس کے اور کوئی راستہ نہ تھا کہ ان تمام پیپرز کو اپنے لیپ ٹاپ پہ منتقل کر لیں۔ اس عمر رسیدہ آدمی نے لیپ ٹاپ کندھے پہ اٹھایا ، برٹش میوزیم لائبریری کا ایک کونہ پکڑا، اور ’کتابیں اپنے آباء کی‘ اپنے لیپ ٹاپ میں محفوظ کرنا شروع کر دیں۔ اس قصے کا دلچسپ پہلو یہ کہ یہ صاحب دس سے بارہ گھنٹے یہ کام کرتے، چھ گھنٹے کی ملازمت کرتے، جس سے جو ملتا اُسے پس انداز کرتے، اور سال بھر بعد جمع ہونے والا سارا کام اپنی جمع پونجی سے چھاپ دیتے۔چھٹی کے رو ز ان کے کام کے معمولات اٹھارہ، اٹھارہ گھنٹے تک چلے جاتے۔ وثوق سے نہ سہی، پر اندازے سے کہا جا سکتا ہے کہ برٹش میوزیم لائبریری میں پڑھائی لکھائی کا اتنا کام تاریخ میں دو ہی لوگوں نے کیا ہے؛پہلے کارل مارکس نے اور اب حمید بلوچ نے۔ آئیے اب دیکھیں کہ اس محنتِ شاقہ کے نتیجے میں کون سے شاہکار منظر عام پہ آئے! ڈاکٹر حمید بلوچ کی شب و روز کی یہ محنت چھ انگریزی او ر دو اردو کتابوں کی صورت میں سامنے آئی۔ ہر کتاب سیکڑوں صفحات کی حامل۔ مستند حوالہ جات سے مزین، پُر مغز اور علمی خزانے سے معمور۔ اس سلسلے کی پہلی کتاب تھی،’بلوچستان ببلوگرافی‘۔ اس کتاب میں انہوں نے اُن تمام کتب کی تفصیل فراہم کی ہے، جو مستشرقین نے بلوچستان سے متعلق لکھی ہیں۔ ایک انتہائی اہم کتاب ’بلوچستان پیپرز ‘ تھی۔ یہ ایک کتاب نہیں بلکہ ایک مستند تاریخی دستاویز ہے۔ اس میں لگ بھگ ایک صدی اس خطے پر حکومت کے دوران برطانوی عمل داروں نے ایک دوسرے کے ساتھ جو خط و کتابت اور مراسلت کی ہے، وہ ساری کی ساری جمع کر دی گئی ہے۔ یوں یہ اُس زمانے کے بلوچستان سے متعلق ’فرسٹ ہینڈ انفارمیشن‘ کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ جی ہاں، ایک صدی کی خط و کتابت۔۔۔ کیا آپ اس کتاب کی ضخامت کا اندازہ لگا سکتے ہیں؟ !۔۔۔ایک ہزار صفحات، دو ہزار صفحات، تین ہزار صفحات؟! یہ فل اسکیپ سائیز کے کاغذ کی پانچ جلدوں پر مشتمل ہے، اور ہر جلد ہزار سے پندرہ سو صفحات پہ مشتمل۔ اہم ترین بات یہ کہ یہ سب انھوں نے اپنے لیپ ٹاپ پہ خود کمپوز کیا، خود اپنے محنت کے پیسوں سے شایع کیا، اور خود ہی دوستوں کے توسط سے اس کی فروخت کی۔ ہم سفارش کریں گے کہ حمید بلوچ کے اس لیپ ٹاپ کو بھی برٹش میوزیم لائبریری میں محفوظ کر لیا جائے۔ ہم ایسے ناقدروں سے تو ان کی کتابیں ہی محفوظ نہیں ہوتیں۔ پھر ’بلوچستان کرانیکلز‘ اور ’مکران افیئرز‘ جیسی دستاویز سامنے لائے۔ دو مزید کتابیں ’میمائرز آف ڈوگرز فیل‘ اور ’بلوچستان ایتھنو باٹنی‘ شایع ہوئیں۔ افسوس کہ یہ کتابیں میں اب تک نہیں دیکھ سکا۔ ساتھ ہی اردو میں دو اہم اور اپنے طرز کی منفرد کتابیں لائے، جس میں ایک کا تذکرہ ہم پہلے کر چکے، ’مکران، عہد قدیم سے عہد جدید تک‘۔ دوسری کتاب ’بلوچ، افغان، پرشین باؤنڈری‘ کے نام سے ۲۰۱۲ء میں سامنے آئی۔ یہ اُس سرحدی تنازعے سے متعلق ہے جسے عرفِ عام میں گولڈ سمتھ،میکموہن لائن بھی کہا جاتا ہے۔ لگ بھگ ساڑھے چھ سو صفحات پہ محیط اس کتاب میں انھوں نے خود یہ لائنیں کھینچنے والے عمل داروں کی دستاویزات پیش کی ہیں۔ کتاب کا آخری حصہ تتموں پر مشتمل ہے، جس میں انگریز عمل داروں کی ان سرحدوں سے متعلق مراسلت اور مذکورہ علاقوں کی رپوتاژ کے تراجم شامل کیے گئے ہیں۔ اس قدرپُر مغز علمی سرمایہ سے روشناس کرانے والے ڈاکٹر حمید بلوچ کا اعلیٰ ترین انسانی وصف یہ ہے کہ وہ اپنے کام سے متعلق کسی قسم کی دعوے داری نہیں کرتے۔ وہ نہایت سادگی سے اسے محض تاریخی پنوں کی تدوین کا نام دیتے ہیں۔ وہ یہ دعویٰ بھی نہیں کرتے کہ انھوں نے اس خطے کی تاریخ کو نئے زاوئیے سے دیکھنے یا دکھانے کی کوشش کی ہے۔ یا اس قدر کٹھن کام کر کے انھوں نے کوئی معرکہ سرانجام دیا ہے۔حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ’بلوچستان اینلز‘ اور ’بلوچستان کرانیکلز‘ جیسا کام کرنے کے لیے اداروں کو بھی لاکھوں روپے کے فنڈز اور بیک وقت کئی ماہرین درکار ہوتے ہیں، تب بھی ان اداروں میں برسوں میں اس نوعیت کا کام نہیں ہوپاتا۔ لیکن اس دھان پان سے آدمی نے محض اپنی محنت اور لگن کے بل بوتے یہ کارنامہ سرانجام کر دکھایا۔ ان کی ایک اور بڑائی یہ کہ یہ اس سارے کام کا کریڈٹ تنہا لینے کو بھی تیار نہیں۔ وہ پروفیسر صبا دشتیاری مرحوم کو اپنا فکری استاد اور رہنما قرار دیتے ہیں۔ جن کے اکسانے اور تعاون کے بغیر،ان کے بقول اس کام کی بنیاد ہی نہ پڑتی۔ان کی تمام کتب بھی صبا دشتیاری کے قایم کردہ ادارہ سید ہاشمی ریفرنس کتاب جاہ کے زیر اہتمام ہی شایع ہوئی ہیں۔ نیز اپنی ہر کتاب میں وہ ان تمام دوستوں کا تذکرہ بارہا کرتے رہتے ہیں، جنھیں وہ اپنا ’ٹیم ورک‘ قرار دیتے ہیں۔ یہی بڑائی، یہی وقار، حقیقی بلوچ دانش کا خاصہ رہا ہے۔ ان معنوں میں ڈاکٹر حمید بلوچ ہماری حقیقی فوک دانش کا تسلسل ہیں۔ وہ اس معدوم ہوتی ہوئی نسل کی آخری نشانیوں میں سے ہیں۔ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ شخص کسی ترقی یافتہ معاشرے میں ہوتا تو وہاں کا جینیئس قرار پاتا۔ ہم نے اپنی فکری پسماندگی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی دھرتی کے لیے یورپ کو خیرباد کہہ کر آنے والے اس نابغہ روزگار کو اوتھل یونیورسٹی میں کانٹریکٹ ملازمت پہ رکھا ہوا ہے۔ تو بقولِ حبیب جالب، اپنے اکابرین کی ایسی ناقدری کرنے والی قوم کو مار کیوں نہ پڑے۔۔۔اسے مار پڑتی ر ہنی چاہیے