|

وقتِ اشاعت :   August 11 – 2014

تحریک انصاف کے سربراہ کپتان عمران خان کو شاید یہ نہیں معلوم کہ وہ ایک بند گلی میں پھنس کر رہ گئے ہیں ۔وہ نا تجربہ کار سیاستدان ہیں جنہوں نے اپنے لئے دوسرا راستہ نہیں بنایا اور پہلے ہی حملے میں اپنا ہر چیز داؤ پر لگا دیا ۔ مبصرین اس رائے سے متفق ہیں کہ ان کی کامیابی کے امکانات انتہائی محدود ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اگر ملک میں ایک خطر ناک صورت حال پیدا ہوتی ہے اور ملک کی سلامتی کو خطرات خطر ناک حد تک بڑھ جاتے ہیں تو ظاہر ہے کہ فوج تماشائی بن کر نہیں بیٹھے گی وہ ملکی معاملات میں یقیناً مداخلت کرے گی اور ملک کی سلامتی کو بچانے کی کوشش کرے گی جس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا ۔ یہ سیاستدانوں کا کام ہے کہ وہ اپنے اور ملکی معاملات احسن طریقے سے انجام دیں اور تناؤ اور ٹھکراؤ کی پالیسی کو ترک کریں ۔ سیاسی معاملات کا سیاسی حل تلاش کریں نہ کہ متشدد احتجاج کا طریقہ اپنائیں ۔ شاید ان تمام باتوں سے عمران خان کو غرض نہیں کہ ملک کہاں کھڑا ہے اور کن خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ اس لئے صحافی کے ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے فرمایا کہ ان کے احتجاج کے نتیجے میں اگر فوج آئی تو اس کے ذمہ دار نواز شریف ہوں گے۔ عمران خان نہیں ، ہر چیز عمران خان کررہے ہیں آگ ان کی لگائی ہوئی ہے ملک میں سیاسی تناؤ سیاسی ٹھکراؤ میں تبدیل ہوچکا ہے ۔ اگر اس ملک میں کچھ ہوا تو مبصرین کے خیال میں ناتجربہ کار سیاستدان عمران خان ہی ذمہ دارہوں گے ۔ عمران خان کو شاید نہیں معلوم کہ پی این اے کے رہنماؤں نے آخری اوقات میں بھٹو صاحب سے معاہدہ کر لیا تھا حالانکہ پی این اے کی تحریک کے دوران ہزاروں افراد مارے گئے تھے ۔ عمران خان کے پاس اس سیاسی بحران سے نکلنے کا کوئی فارمولا نہیں ہے ۔ ان کی سوئی ایک پوائنٹ پر اٹک گئی ہے کہ نواز شریف استعفیٰ دیں جو موجودہ صورت حال میں نا ممکن نظر آتا ہے ۔بعض سنجیدہ مبصرین کے خیال میں موجودہ حالات میں عام انتخابات دوبارہ کرانا کوئی عقل مندی نہیں ہے ۔ موجودہ حکومت نے صرف ایک سال مکمل کیا اور اس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ دباؤ میں آ کر دوبارہ عام انتخابات کرائے گی، یہ خام خیالی ہے ۔ اس صورت حال میں عمران خان کے لئے اس کے سوا چارہ نہیں کہ وہ ملک بھر میں خصوصاً پنجاب اور کے پی کے میں حکومت پر مزید دباؤ بڑھا دیں اور احتجاجی تحریک کو ہر سڑک اور ہر چوراہے پر لائیں تاکہ ملک کے اندر زیادہ سے زیادہ خون خرابہ ہو ۔ انار کی ہو ، تشددکو ہوا ملے اور عمران خان اپنا مقصد حاصل کر لیں ۔ اگر فوج مداخلت کرتی اور نواز شریف کی حکومت کو کسی وجہ سے ہٹاتی ہے تو اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ فوج یا حکومت نوے دن کے اندر انتخابات کرائے گی ۔ جنرل ضیاء الحق نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ نوے دن کے اندر عام انتخابات کرائیں گے۔ مگر ہوا یہ انکے انتقال کے نوے دن بعد۔ا ور وہ بھی ملک میں کسی اور نے انتخابات کروائے تاہم یہ یقینی ہے کہ موجودہ حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان کا کوئی سیاسی کردار نہ ہوگا ۔ ان کو گھر بیٹھنا پڑے گا یا جیل میں ان کے قیام و طعام کا بندوبست کیاجائے گا۔ اس آزادی مارچ میں ہار یا جیت دونوں صورتوں میں عمران خان کا سیاسی مستقبل ختم ہوجائے گا۔ آنے والی حکومت کی اپنی ترجیحات ہوں گی ۔ ان میں فوری طورپر عام انتخابات شامل نہیں ہوگا۔ شاید عمران خان صرف موجودہ حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔