اسلام آباد: وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا ہے کہ کسی پر تشدد ہجوم کے مطالبے پر وزیر اعظم مستعفی نہیں ہوں گے اور نہ ہی اسمبلیاں ختم ہوں گی، ہائی کورٹ کے فیصلے پر مکمل عملدر آمد کیا جائے گا اگر کوئی جماعت یا کوئی گروہ کسی قسم کا اجتماع اور مارچ کرنا چاہتا ہے وہ جس شہر میں جانا چاہتا ہے وہ ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن اس بات کا تعین کرے گی کہ وہ احتجاج آئین کے دائرے میں ہے اور پھر اس احتجاج یا ریلی کی اجازت دی جائے گی،حکومت کو کسی آئینی احتجاج پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا ہے کہ کوئی گروہ اپنے غیر آئینی اور غیر قانونی مطالبات رکھے اور ان کے پورے نہ ہونے پر دارالحکومت پر یلغار کر دے۔
چوہدری نثار نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف پہلے بھی احتجاج اور جلسے کرتی رہی ہے ان کو کبھی نہیں روکا گیا البتہ کوئی بھی حکومت انتشار کی اجازت نہیں دے سکتی کیونکہ حکومت کا امن عامہ کے معاملات کو برقرار رکھنا ہوتا ہے، حکومت کسی سیاسی عمل میں روکاوٹ نہیں ڈالے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی فوج اپنی تاریخ کی مشکل جنگ لڑ رہی ہے ایسے میں لانگ مارچ کے اعلان سے پوری قوم اس جنگ کے بجائے اس میں الجھ گئی ہے، لانگ مارچ کرنے والے تشدد پر اکسا رہے ہیں، اگر کوئی ایک پر تشدد ہجوم کسی ایک حکومت کو رخصت کر دے تو اس کے بعد تو کوئی بھی حکومت کے خاتمے کے لیے مارچ کر کے حکومت کو رخصت کر دے گا۔
وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے پر سپریم کورٹ پر اعتماد کا کہا جاتا ہے تو وزیر اعظم نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے ان کی تجویز پر تین ججوں پر مشتمل کمیشن بنا دیا ہے تو اب پاکستان کی حالت پر رحم کیا جائے اور کسی ادارے کو فیصلہ کرنے دیا جائے کہ آ الزامات درست ہیں یا نہیں، تو کہا گیا کہ وزیر اعظم مستعفی ہوں اسے قبل کوئی کمیشن قبول نہیں تو نواز شریف کی موجودگی میں اس وقت کیا عدالتیں آزادانہ کام نہیں کر رہیں۔
چوہدری نثار نے کہا کہ پنجاب پولیس کی ایک ہفتے کی کارکردگی قابل ستائش ہے ، حکومت نے پہلے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ پی ٹی آئی کو احتجاج کی اجازت دی جائے گی البتہ پاکستان عوامی تحریک کے احتجاج کا کوئی جواز نہیں بنتا، لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ آ چکا ہے حکومت اسی پر عملدرآمد کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تنازع اس حکومت کے لیے امتحان کم اور جمہوریت وجمہوری نظام کا امتحان تھا، اس میں تمام جماعتوں نے سیاسی اور نظریاتی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر جمہوری نظام کے لیے ساتھ دیا۔
انہوں نے جماعت اسلامی اور اس کے سربراہ سراج الحق کا خصوصی طور پر شکریی ادا کیا اور سیکیورٹی اداروں کی کارکردی کی تعریف کی۔
انہوں نے اسلام آباد اور لاہور کی عوام سے معافی بھی مانگی کہ ان کے معمولات میں مشکل پیش آئی۔