پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے یہ انکشاف کیا ہے کہ ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ گو کہ انہوں نے کسی کا نام نہیں لیا مگر ان کا اشارہ تھا عمران خان اور ڈاکٹر قادری اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کی طرف، ان باتوں سے عوام الناس کو یہ یقین ہوگیا ہے کہ ملک ایک شدید سیاسی بحران میں پھنسا ہوا ہے۔ پاکستانی لیڈر شپ میں یہ اہلیت نظر نہیں آتی کہ وہ ملک کو سیاسی بحران سے نکال سکے۔ یہ بات یقینی ہے کہ احتجاج کرنے والے عمران خان اور ڈاکٹر قادری کے حصے میں کچھ بھی نہیں آئے گا۔ ڈاکٹر قادری کینیڈا واپس جاکر گوشہ نشین ہوجائیں گے اور عمران خان کو سیاست میں نیک نامی ملنے کی توقع نہیں۔ بہر حال مسئلہ ملک کی سالمیت کا ہے۔ اگر اس بحران نے کروٹ بدلا تو عین ممکن ہے کہ بیرونی عناصر اس میں مداخلت کریں اور ان کی کوشش ہوگی کہ پاکستان کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جائے۔ امریکہ نے پہلے ہی غیر آئینی تبدیلی کے خلاف صاف اور واضح وارننگ دی ہے کہ امریکہ کسی غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات کی حمایت نہیں کرے گا۔ بلکہ وہ پاکستان پر اقتصادی اور دوسری پابندیاں لگائے گا۔ امریکہ کے اس بیان کو اگر جان کیری کے دورہ بھارت کے نکتہ نظر سے دیکھیں اور خصوصاً مشترکہ اعلامیہ میں یہ تذکرہ کہ امریکہ اور بھارت دونوں القاعدہ اور لشکر طیبہ کے خلاف کارروائی کریں گے۔ اس اعلامیہ میں ایٹمی دہشت گردی کا بھی تذکرہ ہے جو واضح طور پر پاکستان کی طرف اشارہ ہے۔ ان اشاروں سے صاف اور واضح بات ابھرتی ہے کہ امریکہ اور بھارت نے مشترکہ طور پر پاکستان کو ٹارگٹ بنایا ہوا ہے اسی تناظر میں نواز شریف نے ایک اور تلخ بات کہہ دی ہے کہ ملک کو دہشت گردی کی طرف دھکیلنے والوں کا بھی احتساب کیا جائے جس کی وجہ سے ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں اور اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ نواز شریف نے کسی کا نام نہیں لیا مگر بہت تلخ بات کہہ دی۔ بہر حال یہ طے ہے کہ نواز شریف اور ان کی پوری ٹیم پھر پریشان ہے کہ ان کی حکومت کا تیسری بار تختہ الٹا جارہا ہے ۔نواز شریف نے اپنی زبان سے اور تقریرمیں اس کی تصدیق کی ہے۔ جب بھی موقع ملے گا نواز شریف ان تمام الزامات کو دہراتے رہیں گے۔ مگر برطرفی کی صورت میں ملک کا کیا بنے گا۔ ظاہر ہے کہ بحرانی صورت میں فوری انتخابات ناممکن ہیں۔ جو بھی اقتدار میں آئے گا وہ ذاتی مفاد اور اقتدار کے مفاد میں انتخابات نہیں کرائے گا۔ بلکہ سالوں حکومت کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ قومی حکومت یا ماہرین کی حکومت قائم ہوگی جو عوام الناس کو جوابدہ نہیں ہوگی۔ نہ پارلیمان ہوگا اور نہ جوابدہی کا آئینی عمل موجود ہوگا۔ یہ طے ہے کہ ملک کی مسلح افواج ایسی حکومت کی پشت پناہی کریں گی مگر ایسی صورت میں حکومت پاکستان کے تعلقات امریکہ، یورپی یونین، بھارت اور کئی ممالک سے کشیدہ رہ سکتے ہیں۔ اس کا کوئی حل نظر نہیں آتا ہے ان تمام ممالک کا خطے سے متعلق اپنا اپنا ایجنڈا ہے جس پر وہ سرعت کے ساتھ عمل کرسکتے ہیں۔ امریکہ کی ایک بہت بڑی فوجی قوت اس خطے میں موجود ہے۔ اس کے 50سے زیادہ جنگی جہاز گوادر کے قریب موجود ہیں جس کو بحر بلوچ میں بحران کی صورت میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ خصوصاً ایسے وقت جب ایران آبنائے ہرمز کو بند کردے اور جہازوں کی آمدورفت میں خلل ڈالے۔ امریکہ آبنائے ہرمز کو محفوظ بنانے کی کوشش کرے گا۔