گوادر کے حسیں و دل فریب ساحل سے لے کر جیونی کے جان لیوا سن سیٹ تک کا سفر تمام ہواتو ہم نے تربت کی راہ لی۔گوادر نے محض ہماری آنکھ اور دل کو ہی سیر نہ کیا بلکہ یہاں ہونے والی مہمان نوازی نے ہمیں شکم سیر بھی کر دیا تھا۔ پسنی سے لے کر گوادر کے نواح میں واقع سُور بندتک ساحل کے پاس ہم نے لُجر (مچھلی کی خاص قسم) کی لذیذ دعوتیں اڑائیں، تو کوہِ باتیل کی چوٹی پہ ہمارے ہم نوا پروفیسر اعجاز کے رفیقِ کار الٰہی بخش کی سنگتی کا لطف لیا۔ ہلکی بونداباندی میں جب ہم گوادر سے تربت کے لیے روانہ ہوئے تو انہی الہٰی بخش نے ہمارے لیے زادِ راہ کا اس قدر وافر انتظام کر دیا کہ جس نے ہمیں آگے چل کر ’ڈَڈِّے‘ (Daddy) کی بدمعاشی کا سامنا کرنے میں خاصی مدد فراہم کی۔ گوادر سے تربت کا فاصلہ کچھ بہت زیادہ طویل نہ ہونے کے باوجود ہم ایک دن کی تاخیر سے نکلے تو وجہ محض اس دوران ہونے والی بارش تھی۔ اور یہاں روایت یہ ہے کہ اگرہلکی بوانداباندی بھی ہو جائے تو کئی دن راستہ بند پڑا رہتا ہے۔ پورے مکران میں ،پہاڑوں سے اترتے ندی نالے نشیبی راستوں کے بیچ سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ بارشوں میں یہ نالے ، دریا کا روپ دھار لیتے ہیں۔ جس سے آمد و رفت کے ذرائع شدید متاثر ہوتے ہیں۔آمر پرویز مشرف کے عہد میں بننے والے کوسٹل ہائی وے کا شاید ہی کوئی پُل ہو جو اِن بارشوں کے قہر سے محفوظ رہا ہو۔ لگ بھگ ہر کلو میٹر کے بعد آنے والے یہ پل جب سے ٹوٹے، پھر کبھی نہ بن سکے۔ کوئی ایک آدھ حصہ اگر بن بھی جائے تو بس اتنا ہی مضبوط بنتا ہے کہ اگلی بارش تک کا بوجھ سہار سکے۔ ان چھوٹی پلوں کے ٹوٹنے کے باوجود ،آپ نشیب میں بنے کچے راستوں سے کسی نہ کسی طور گزر ہی جاتے ہیں، جس سے چھ گھنٹوں کے کل سفر کا دورانیہ بارہ گھنٹوں پہ محیط ہو جاتا ہے۔۔۔لیکن محض بیس فٹ چوڑے اور چالیس فٹ لمبے ڈَڈِّے کو پارکرنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور ہے۔ تربت سے محض بیس، پچیس کلو میٹر کے فاصلے پہ واقع یہ مقام پڑھے لکھے، ترقی یافتہ قوم پرست، ترقی پسند، روشن فکر مکران کا ایک اور ہی چہرہ دکھاتا ہے۔ ڈَڈِّے کے لفظی معنی کسی کرخت چیز کے ہیں۔ اور یہ مقام واقعتا اسمِ بامسمیٰ ہے۔ سیکڑوں انسانوں کا جان لیوا یہ معمولی سا مقام ایک گہرے کھڈ پہ مشتمل ہے۔ جس کی لمبائی بمشکل چالیس فٹ اور چوڑائی بیس فٹ ہو گی، گہرائی شایدسات ،آٹھ فٹ ہو۔پانی سے بھرے اس گہرے کھڈ میں جب کوئی کوچ اترتی ہے تو اس کا نچلا سارا حصہ پانی میں ہوتا ہے، حتیٰ کہ پانی اس کے اندرونی حصوں میں گھس آتا ہے۔ سامان سے لدے ٹرک اسے پار کرنے کی کوشش میں اگر پھنس جائیں یا خدانخواستہ الٹ جائیں تو انھیں نکلنے میں کئی دن، اکثر ہفتوں لگ جاتے ہیں۔علاقے میں اس سے متعلق روایت یہ ہے کہ ایک بار اس میں پانی آ جائے تو یہ کسی انسان کی بَلی لیے بِنا ٹلتا نہیں۔ ہم جب اس مقام پہ پہنچے تو گذشتہ روز سے مسلسل ہونے والی بارش کے باعث یہ اپنے جوبن پہ تھا۔ دونوں اطراف ٹریفک کا اژدھام تھا۔ایسے موقع پراس پل صراط کو پار کرنے کا ایک ہی طریقہ ہوتا ہے، اور وہ ہے روسی ٹریکٹر کا استعمال ۔ ڈَڈِّے باقی انسانوں کے لیے خواہ کیسا ہی خونی اور قاتل کیوں نہ ہو، مقامی ہاریوں کے لیے یہ کسی ’رازق‘ سے کم نہیں۔ جب بھی یہ اپنے جوبن پہ آ جائے ، مقامی کاشت کار اپنے ٹریکٹر لے کر آ جاتے ہیں اور سواریوں نیز ہلکی پھلکی گاڑیوں حتیٰ کہ ٹرک تک کو کھینچ کر ایک کونے سے دوسرے کونے تک لے جاتے ہیں۔ اور اس سرگرمی سے محض ایک دن میں اتنا کما لیتے ہیں کہ مہینہ بھر کھانے کو کافی ہوتا ہے۔سو، اس دوران سارا مکران اگر مل کر بھی بارش رکنے کی دعا مانگے توبھی یہ لوگ اس دعا کا حصہ نہیں بنیں گے۔ اس ٹریکٹر کے کمالات ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھے، لیکن خود اس سے مستفید ہونے سے محروم رہے، کہ ہمارے پاس چھوٹی سی مہران گاڑی تھی، جو ڈَڈِّے نامی بدمعاش کے لیے ایک معمولی سی نوالہ ثابت ہوتی۔ بعدازاں، خاصے انتظار اور مشاورت کے بعد ایک اور متبادل اور طویل راستہ اختیار کرتے ہوئے ہم امتحان سے تو نکل آئے، جس کا ایک فائدہ بہرحال یہ ہوا کہ ہم نے دشت کے کئی اندرونی قصبے دیکھ لیے، وہ علاقے بھی جہاں بقول شخصے، سرمچاروں کا عملی راج ہے۔ یہاں ایک جگہ انھوں نے پہاڑ کے دامن میں ایک بورڈ لگا رکھا ہے، جس پہ مقامی آبادی کے لیے ’انتباہ‘درج ہے کہ اگر آپ کوکوئی شکایت ہو (جیسے کہ آپ کے ہاں کوئی چوری ہوئی ہو، یا کسی سے کوئی جھگڑا ہو) تو اس بورڈ کے پاس آکر بیٹھیں، کچھ ہی دیر میں کسی موٹر سائیکل پہ سرمچاروں کا ایک نقاب پوش نمائندہ آپ کے پاس آئے گا، آپ کا مسئلہ معلوم کرے گا اور آپ کو اس یقین دہانی کے ساتھ واپس جانے کو کہے گا کہ آئندہ چوبیس سے اڑتالیس گھنٹوں تک آ پ کا معاملہ حل ہو جائے گا۔۔۔اور ایسا ہو بھی جاتا ہے ۔ (دروغ برگردنِ راوی!)یہیں پہاڑوں کے دامن سے برآمد ہونے والے ہر دوسرے موٹر سائیکل سوار سے متعلق جب ہمارے ڈرائیور دوست نے انھیں سرمچار بتاتے ہوئے ازراہِ تفنن مجھ سے کہا کہ،’میر صاحب آپ نے تو ایسی چھوٹی مشکوک شلوار پہنی ہوئی ہے، آپ کو تو یقیناًاٹھا کر لے جائیں گے‘ جس پہ میرے منہ سے بے اختیار یہ پھبتی نکلی کہ ،’افسوس اس سرمچار پہ جو لوگوں کی شلوار دیکھ کے ان کو مارتا ہو!‘ اس پہ تادیر سبھی مسکراتے رہے۔
لیکن مجھے رہ رہ کر ڈَڈِّے یاد آتا رہا۔ کوسٹل ہائی وے سے ملحق، محض چند فٹ چوڑا اور گہرا گڑھا جو کسی بھی وقت پورے مکران کو مفلوج کر کے رکھ سکتا ہے۔ اور یہ اس مکران کی بات ہو رہی ہے جو اپنے شعوری اور فکری ارتقا میں پورے بلوچستان کے لیے رول ماڈل سمجھا جاتا ہے۔ بلوچستان کی بیوروکریسی کی کریم یہیں سے آتی ہے۔ ظہور شاہ ہاشمی سے لے کر عطا شاد تک بلوچی ادب کا ہر معتبر حوالہ یہیں سے دستیاب ہوتا ہے۔ وہی مکران جو علم و ادب اور دانش ورانہ میدان میں کلاسیک سے لے کر جدید عہد تک صفِ اول میں رہا ہے۔ جس نے بلوچستان میں سب سے پہلے سرداری نظام کو خداحافظ کہا۔ وہی مکران جس نے بلوچستان کو پہلا’ غیر سردار حکمران‘ دیا۔۔۔وہ سار ا مکران ایک معمولی سے کھڈے، ڈَڈِّے کے آگے سرنگوں ہے۔ اسی ڈَڈِّے سے محض چند فرلانگ پہ دشت کا وہ معروف علاقہ ہے،جہاں سے محض ایک خاندان سے درجنوں افراد بلوچستان کی بیوروکریسی کا حصہ ہیں۔آگے چند کلو میٹر پہ وہ تربت ہے، جہاں اس عہد کے حکمران بستے ہیں، یہی تربت بین الاقوامی سطح کے ان ڈرگ ڈیلرزکا ٹھکانہ ہے جو کروڑوں ڈالرز کماتے ہیں۔ گوادر سے ابھی ہم نوجوان بیوروکریٹ کی انقلابی گفت گو سن کر آ رہے تھے۔۔۔لیکن ایک ڈَڈِّے ان سب پہ بھاری ہے۔ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ مکران میں اس قدر سرمایہ دار بستے ہیں کہ ان میں سے محض ایک شخص ایک سال کی زکوٰۃ نکال لے تو ڈَڈِّے کے کھڈے پہ پل بنایا جا سکتا ہے، جس کے پلرز تک تیار ہو چکے ہیں۔ اور یہ ڈَڈِّے کے سامنے خوار ہونے والے عوام الناس سے لے کر لینڈ کروزرتک کے سواروں کا منہ چڑا رہے ہیں۔
سو، مجھے جی سے ناچار ہو کر دوستوں سے کہنا پڑا کہ ڈَڈِّے نامی یہ معمولی سا کھڈمکران کے باشعور عوام کا امتحان ہے۔ ہم مشرقی بلوچستان والے تو ازل سے فیوڈلز کے مارے تھے، سرداروں نوابوں کا دم بھرنے والے تھے، مکران کو ہم نے رول ماڈل اسی لیے بنایا تھا کہ اس نے کرپٹ سرداری نظام کو اکھاڑ پھینکا۔ لیکن یہ تاریخ کا کیسا جبر ہے کہ آج سرداروں کے سب سے زیادہ چاہنے والے اور ان کے ’فکری باڈی گارڈز‘ اسی مکران سے جنم لے رہے ہیں، اور پورے بلوچستان کی فکری امامت کے باوجود ڈَڈِّے کا داغ اپنے دامن پہ لیے ہوئے ہیں۔ کیسی حیرت کی بات ہے کہ مکران کے کسی جدید رحجان والے شاعر نے ڈَڈِّے کا وسیع استعارہ اب تک استعمال نہیں کیا ۔ کسی ناول نگار کو اسے برتنے کا خیال تک نہیں آیا۔چلیے، ایک افسانہ مجھ پہ ادھار رہا۔ لیکن ایک ادھارمکران کے دوستوں پہ بھی رہا، کہ اہلِ مکران یہ تسلیم کر لیں کہ مکران میں ابھی سرداری نظام کا مکمل خاتمہ نہیں ہوا۔ کم از کم ایک سردار تو ابھی باقی ہے؛ ’سردارڈَڈِّے خان!‘