گزشتہ دو ہفتوں سے پورا ملک مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ عمران خان کو نواز شریف سے ذاتی دشمنی ہے اور اس لئے ان سے استعفیٰ طلب کررہے ہیں۔ وہ اپنی تقاریر میں بہت زیادہ سخت الفاظ استعمال کررہے ہیں اور ان کو براہ راست دھمکیاں دے رہے ہیں جس کی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ رات گئے پورا ہجوم ریڈ زون میں داخل ہوگیا ہے اور احتجاج کرنے والے لوگ پارلیمنٹ ہاؤس کے لان میں موجود ہیں ان کو ایک خاص کام کے لئے ایک محفوظ راستہ فراہم کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہجوم نواز شریف کے استعفیٰ کے بغیر پارلیمنٹ ہاؤس سے واپس نہیں جائے گی۔ عمران خان نے بدھ کی شام تک نواز شریف حکومت سے استعفیٰ طلب کیا ہے شاید اس کے بعد وہ تشدد کا راستہ اختیار کریں اور حکومت کو مجبور کریں کہ وہ استعفیٰ دے دیں یا مقتدرہ سے کہا جائے گا کہ وہ نواز شریف کو مجبور کریں کہ وہ استعفیٰ دیں ورنہ ملک بھر میں تشدد کا سامنا کریں۔ جن حضرات یا فورسز نے ان کو پارلیمنٹ ہاؤس تک محفوظ راستہ فراہم کیا ہے۔ وہی مقتدرہ کے لوگ وزیراعظم پاکستان سے استعفیٰ لے سکتے ہیں۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ صرف نواز شریف کو ایوان اقتدار سے نکالا جائے گا اور ان کی جگہ چوہدری نثار یا کوئی اور لے سکتے ہیں۔ شاید معاملہ اس پر حل نہ ہو۔ بلکہ پورے پارلیمان کو تحلیل کیا جائے۔ حکومت سے استعفیٰ لے کر اسی سانس میں پارلیمان توڑنے کا اعلان کیا جائے ساتھ ہی تمام صوبائی اسمبلیوں کو بھی تحلیل کیا جائے اور صوبائی حکومتوں کو گھر بھیج دیا جائے۔ وفاق اور صوبوں میں ’’قومی حکومتیں‘‘ قائم کی جائیں۔ بہر حال ایک بات واضح ہے کہ ہجوم پارلیمنٹ ہاؤس سے اس وقت تک واپس نہیں جائے گا جب تک نواز شریف کی حکومت برقرار ہے۔ موجودہ نازک صورت حال میں مڈٹرم یا وسط مدتی انتخابات کرانا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن نظر آتا ہے۔ جو بھی نئی حکومت برسراقتدار آئے گی وہ سالوں کے لئے ہوگی۔ اس میں ممکن ہے کہ تمام پارٹیوں کے نمائندے شامل ہوں۔ ایسی صورت میں امریکہ، برطانیہ اور دنیا کے دیگر ممالک ’’نئی حکومت‘‘ کو تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ ان کے خیال میں نواز شریف کی منتخب حکومت کو ہٹانا غیر آئینی اقدام ہوگا جس کے لئے امریکہ اور برطانیہ نئی حکومت کے خلاف پابندیاں لگاسکتے ہیں جو پاکستان کے لئے زہرقاتل ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ بات اب واضح ہوچکی ہے کہ اب حکومت نام کی کوئی چیز باقی نہیں بچی ہے ۔چند ہزار افراد نے منتخب حکومت کا تقریباً تختہ الٹ دیا ہے۔ حکومت کہیں بھی نظر نہیں آرہی ہے۔ پارلیمنٹ ہاؤس پر ہجوم کا قبضہ ہے۔ شام گئے تک معاملات طے ہونے کی پیشن گوئی کی جارہی ہے نئی حکومت میں کون لوگ ہوں گے۔ اس میں عمران خان کی پارٹی کی نمائندگی بھرپور ہوگی۔ مخدوم شاہ محمود قریشی اور اسد عمر دو متوقع وزیر نئی کابینہ میں شامل ہوسکتے ہیں۔ عمران خان کو شاید گھر بھیج دیا جائے گا۔