حکومت خلاف پاکستان تحریک انصاف اورپاکستان عوامی تحریک کے آزادی اور انقلاب مارچ جو 14اگست کے دن سے شروع ہوئے تھے ، اب دھرنوں کی صورت میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دونوں پارٹیوں کے کارکن اکھٹے ہوچکے ہیں۔ عمران خان تو اپنے مارچ کا اعلان قریباً تین مہینہ قبل کرچکے تھے اور واضح تاریخ بھی دی تھی یعنی 14 اگست جبکہ طاہرالقادری نے تاریخ کا اعلان نہیں کیا تھا تاہم ان کی طرف سے بھی انقلاب مارچ کا عندیہ واضح تھا۔ لیکن ایک چیز جو واضح ہوکر نظر آرہی ہے وہ ہے حکومت کی طرف سے بروقت اقدامات کا فقدان یعنی حکومت نے ان دونوں حضرات کو پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں دی اور نہ ہی کسی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ۔ ان دونوں حضرات کی باتوں کو سنجیدگی سے لیا جاتا تو حکومتی سطح پر شروع دن سے مذکراتی کمیٹیاں بنائی جاتیں اور اس مسئلے کو اس نقطے پر پہنچنے سے قبل حل بھی کیا سکتا تھا۔ محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس قابل مشیروں کی انتہائی کمی ہے ورنہ حالات اس نہج تک نہیں پہنچ سکتے تھے کہ جو اب ’’نہ اگلی جائے نہ نگلی‘‘ والی صورتحال بن گئی ہے۔ گزشتہ پی پی حکومت جناب زرداری کے زیر سایہ ایسے کئی بحرانوں سے بخوبی عہدہ براہ ہوئی اور اپنے پانچ سال مکمل کرکے ناقدین کو حیران بھی کردیااور اسے اس قدر بھاری عوامی مینڈیٹ کا بھی دعویٰ نہیں تھا جس قدر موجود حکومت کو ہے لیکن اس کے باوجود صورت حال اس کے قابو سے باہر ہوجاتی ہے تو اسے عمران خان اور طاہرالقادری کی سٹریٹ پاور سے زیادہ اقتدار پر براجمان ن لیگ کی سیاسی معاملات سے لاتعلقی اور نالائقی کہا جائے گا۔بحرحال جو ہونا تھا سوہوا، اب مزید تاخیر اور حقیقت سے نظریں چرانے کا سلسلہ بند کرنا ہوگا، اس کے لیے حکومت کی طرف سے فوری طور پر بامقصد مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنا ہوگااور معاملات کو’’ کچھ لو اور کچھ دو ‘‘ کے تحت حل کرنا ہوگا تاکہ عمران خان اور طاہرالقادری اپنے کارکنوں میں سرخرو ہوسکیں اور انہیں اپنی جیت کا یقین دلاسکیں اور حکومت بھی کسی بڑے نقصان سے بچنے کے لیے چھوٹے نقصان کو برداشت کرنے کے لیے ذہنی طور پر خود کو تیار کرلے کیونکہ معاملات کو سلجھانے کی ذمہ داری بحرحال حکومت پر عائد ہوتی ہے اور اسے یہ کردار نبھانا ہوگا اور وہ بھی جلد سے جلد ورنہ مزید تاخیر پر معاملات کا حل کسی اور طریقے سے بھی نکل سکتا ہے کیونکہ بحرحال ہر بحران کو حل ہونا ہی ہے۔