ملک کو گزشتہ 20سالوں سے مذہبی دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا اور آج کل سیاسی دہشت گردی نے مذہبی دہشت گردی کی جگہ لے لی ہے۔ ان سیاسی دہشت گردوں کو بعض حکمرانوں کی امداد حاصل ہے۔ ورنہ وہ آبپارہ اسلام آباد سے محفوظ راستہ ملنے پر پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر جمع نہ ہوتے۔ اب یہ حضرات یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ ان کے مزید لوگوں کو پارلیمنٹ ہاؤس تک پہنچنے دیا جائے اس کے بعد وہ حکومت سے دوبارہ مذاکرات کریں گے۔ ان کو یہ یقین ہے ان کی تعداد بہت کم ہے جس سے ان کا یہ مطالبہ کہ حکومت کو ہٹایا جائے احمقانہ لگتا ہے۔ الطاف حسین نے کراچی میں کئی بار 20لاکھ کے جلسے کیے مگر ان کو کبھی بھی پذیرائی نہیں ملی۔ ایک جلسہ تھا۔ ختم ہوگیا۔ لوگ بھول گئے۔ اب طاہر القادری اور عمران خان چند ہزار انسانوں کی حمایت سے حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں حکومت کو گھر بھیجنا چاہتے ہیں بلکہ تمام صوبوں کی حکومتوں کو گھر بھیجنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ان دونوں حضرات کا بلوچستان میں کوئی نمائندگی بھی نہیں ہے۔ ان کے چند عہدیداروں کے علاوہ بلوچستان کا کوئی شخص ان کے مظاہرے اور دھرنے میں شامل نہیں ہے۔ اس کے باوجود وہ اپنا یہ حق جتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ بلوچستان کی حکومت اور اسمبلی کو بھی گھر بھیجا جائے۔ کیونکہ ان کا تعلق حکمران طبقات سے ہے۔ اس لئے کہ مغلوب انسانوں کا کوئی حق نہیں۔ جو فیصلہ وہ اسلام آباد میں بیٹھ کر کریں تو وہ بلوچستان اور سندھ پر لاگو ہوجاتا ہے۔ اس ساری تکبر اور غرور کے پیچھے مقتدرہ کے لوگ ہوسکتے ہیں جو چند ہزار افراد کو استعمال کرکے ایک منتخب حکومت اور اسمبلی کی بساط لپیٹنا چاہتے ہیں۔ اس کا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے بغیر کسی لاٹھی چارج کے تمام راستے کے کنٹینر ہٹادیئے گئے اور ان کو ایک جانب اور محفوظ راستہ فراہم کیا گیا کہ وہ آبپارہ سے پارلیمنٹ ہاؤس کا گھیراؤ کریں اور حکومت کو مجبور کریں کہ وہ استعفیٰ دے۔ اس کے بعد کیا ہوگا۔ ان دونوں لیڈر حضرات کو بھی نہیں معلوم کہ آیا قومی حکومت بنے گی۔ کام چلاؤ حکومت بنے گی۔ اور وہ کتنے دن اور سالوں کے لئے ہوگی؟ قرائن یہ بتاتے ہیں کہ نئی حکومت ’’غیر سیاسی‘‘ ہوگی اور یہ موجودہ انتخابی عمل کے باقی دن مکمل کرے گی۔ یعنی چار سال کی ہوگی۔ اس میں عمران خان کی پارٹی کے دو پسندیدہ لیڈر۔ شاہ محمود قریشی اور اسد عمر۔ وزیر ہوں گے اور عمران خان کو گھر کا راستہ دکھایا جائے گا۔ یا وہ باقی زندگی خدمت خلق میں گزاریں گے یا لندن چلے جائیں گے۔ ان کا اس احتجاج کے بعد کوئی سیاسی کردار نظر نہیں آرہا ہے کیونکہ انہوں نے تمام حدود پھلانگ دیئے ہیں اور ان کے لئے باقی کچھ نہیں بچا۔ قادری صاحب دوبارہ کینیڈا کا رخ کریں گے وہاں بیٹھ کر شاید ہی پاکستان کو یاد کریں۔