|

وقتِ اشاعت :   August 26 – 2014

نواب اکبر بگٹی اپنے عہد کا ایک نمایاں اور نامور شخصیت تھے ۔سیاست میں انہوں نے بہت نام کمایا اور لوگوں کی ہمدردیاں بھی حاصل کیں ۔ آج کا بلوچستان ان شہیدوں کی قربانی کا ثمر ہے جنہوں نے بلوچستان کے لئے اپنا سب کچھ قربان کیا ۔ ابتداء میں بلوچستان میں ایک اجتماعی لیڈر شپ تھی ۔ا ن میں میر غوث بخش بزنجو نواب خیر بخش مری‘ سردار عطاء اللہ مینگل اور نواب اکبر بگٹی نمایاں تھے ۔ ان میں سے دو رہنماؤں کو ملک اور دنیا بھر میں زبردست پذیرائی ملی اور وہ بین الاقوامی میڈیا پر چھائے رہے اور بلوچستان کا مقدمہ زبردست انداز میں لڑتے رہے ۔ ان میں ان دونوں لیڈروں کو کامیابیاں بھی ملیں ۔ بنگلہ دیش بحران کے دوران ان دونوں کا کلیدی کردار تھا ۔ نواب بگٹی عوامی لیگ کے چھ نکات کے زبردست حامی تھے ۔ وہ واحد شخصیت تھے جو مغربی پاکستان سے چھ نکات کے حق میں نہ صرف بیانات دیتے رہے بلکہ مظاہرے بھی کیے جس سے اس وقت کی فوجی جنتا سخت ناراض تھی ۔ بزنجو صاحب دوسری جانب اقتدار کی منتقلی کے حق میں تھے ان کا یہ خیال پختہ تھا کہ اگر اقتدار عوامی لیگ کی اکثریتی پارٹی کو نہیں دیا گیا تو پاکستان ٹوٹ جائے گا ۔ 26مارچ کو ڈھاکہ سے کراچی پہنچنے پر بزنجو نے ہم اخبار نویسوں کو بتایا کہ پاکستان حقیقت میں ٹوٹ چکا ہے اور آپ لوگ اس کے باقاعدہ اعلان کا انتظار کریں ۔ جہاں تک نواب بگٹی کا تعلق ہے اس بحران کے دوران انہوں نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا اور مرحوم شیخ مجیب الرحمان سے سیاسی اور آئینی معاملات پر باہمی مذاکرات کیے اور اکثر آئینی معاملات میں ان کے خیالات یکساں تھے ۔ ون یونٹ کو توڑنے کی تحریک میں نواب بگٹی کا کردار نمایاں تھا وہ سالوں جیلوں میں رہے اور کبھی سودے بازی نہیں کی ۔ جیل کے اندر ان کی بھوک ہڑتال تاریخی تھی جس پر پورے پاکستان میں یہ مطالبہ زور پکڑ گیا کہ ان کو رہا کیا جائے ۔ ایوب خان ون یونٹ اور مشرقی پاکستان کے درمیان برابری کو بچانے کے لئے آئے تھے ۔مغربی پاکستان اسمبلی نے ون یونٹ توڑنے کی قرار داد پاس کر لی تھی اور اس پر عمل درآمد سے پہلے ایوب خان نے مارشل لاء لگا دیا۔ پورے دور میں ایوب خان ان پارٹیوں اور لیڈروں کے خلاف کارروائیاں کرتے رہے جو ون یونٹ کے مخالف تھے۔ ان میں صف اول میں نواب بگٹی بھی تھے بلکہ ایوب خان کو نواب بگٹی سے ذاتی عناد تھا اس لئے ان کے خلاف زیادہ سخت کارروائی کی گئی ۔ یہی عالم جنرل پرویزمشرف کا تھا وہ نواب بگٹی اور دوسرے بلوچ رہنماؤں سے اس لئے نفرت کرتے تھے کہ وہ جنرل صاحب جو بیک وقت کماندار اعلیٰ‘ مقتدر اعلیٰ اور صدر پاکستان بھی تھے ان کو خاطر میں نہیں لاتے تھے ۔ جنرل مشرف ضرورت سے زیادہ اپنی ذات کی اہمیت سمجھتے تھے اور باقی تمام پاکستانی دوسرے درجے کے شہری۔ جب ایک فوجی افسر نے خاتون ڈاکٹر کے ساتھ زیادتی کی تو پورے بگٹی قبائل میں ہنگامہ کھڑا ہوا ۔ خاتون ڈاکٹر ہماری مہمان ہے ۔ ہماری بیٹی ہے اور ہمارے لوگوں کی خدمت کررہی ہے۔ ان کے ساتھ زیادتی پر احتجاج کیا گیا جو جنرل صاحب کو پسند نہیں آیا۔ انہوں نے زبردست طریقے سے فوجی قوت استعمال کی ۔ وہ بھی نہتے شہریوں پر ‘ عبادت گاہوں پر بم گرائے اورتقریباً ستر سے زائد بچے اور عورتیں اور دوسرے لوگ ہلاک ہوئے ۔ ان میں اکثریت دوسرے مذاہب کے لوگ تھے مگر سب بگٹی قوم سے تعلق رکھتے تھے ۔ اس دوران ایک بم عین اس جگہ گرا جہاں پر نواب بگٹی اپنے مہمان خانے میں اکثر بیٹھا کرتے تھے ۔ یہ ایک PRECISION BOMBING کا واقعہ تھا ۔ یعنی ٹھیک ٹھیک نشانے پر وار کرنے کا واقعہ تھا ۔ دوسرے واقعہ سے قبل ہی نواب صاحب پہاڑوں پر چلے گئے جہاں پران کی شہادت کے لئے فضائیہ کااستعمال کیا گیا ۔ ان کے ساتھ تقریباً 30کے قریب فدائین شہید ہوئے ۔ نواب اکبر بگٹی بخوشی شہادت قبول کرکے بلوچستان کی سیاست کا نقشہ بدل ڈالا۔ آج کی بدلی ہوئی سیاست نواب بگٹی اور ان کی قربانیوں کی مرہون منت ہے ۔