لاہور: سترہ جون کو ماڈل ٹاؤن میں ہونے والے سانحے کی تحقیقات کرنے والے جوڈیشل کمیشن نے حکومت کو واقعے کا ذمہ دار ٹہراتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس نے حکومت کے احکامات پر کارروائی کی جس کے باعث خونریزی ہوئی۔
جوڈیشل کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ وزیراعلیٰ شہباز شریف اور رانا ثنااللہ کے پولیس کو دیے گئے بیانات میں تضاد موجود ہے اور واقعے کے مقام پر ہونے والی سرگرمیاں بھی ان دعوؤں سے میل نہیں کھاتیں۔
اس رپورٹ کے مواد کا، جس کے بارے میں حکومت کا کہنا ہے کہ یہ خفیہ ہے، سب سے پہلے ایک نجی ٹی وی چینل کے اینکر نے انکشاف کیا تھا اور اس کی ڈان نے آزادانہ ذرائع سے تصدیق کی ہے۔
رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ذرائع کا کہنا تھا کہ واقعے سے قبل رانا ثنااللہ کی صدارت میں ہونے والے اجلاس کے فیصلوں کے باعث بدترین قسم کا خون خرابہ ہوا۔
رپورٹ کے مطابق شہباز شریف نے اپنے ایفی ڈیوٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ماڈل ٹاؤن میں پولیس کو پیچھے ہٹنے کے احکامات جاری کیے تھے تاہم انہوں نے اس کا ذکر سانحے کے بعد ہونے والی پریس کانفرنس میں نہیں کیا۔
ذرائع نے رپورٹ کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پیچھے ہٹنے کے الفاظ وزیراعلیٰ کو بچانے کے لیے بعد شامل کیے گئے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماڈل ٹاؤن میں کارروائی حکومتی احکامات کے بعد کی گئی اور پولیس پوری طرح اس کی ذمہ دار تھی۔
پنجاب حکومت کے ایک ترجمان نے جوڈیشل ٹریبونل کی رپورٹ کے بارے میں کہا کہ اس کا جائزہ لیا جارہا ہے اور یہ بے نتیجہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ رپورٹ ڈاکومنٹس، بیانات اور ایفی ڈیوٹس کی روشنی میں تشکیل دی گئی جنہیں رپورٹ کے ساتھ فراہم نہیں کیا گیا۔ ان دستاویزات کی فوری طور پر درخواست کی گئی ہے تاکہ رپورٹ کا جائزہ لیا جاسکے اور بعد میں ضروری اقدامات کیے جاسکیں۔
پنجاب حکومت کے ذرائع نے اینکرپرسن کے دعوؤں یا ڈان کی بات چیت کی تردید نہیں کی تاہم ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ بے نتیجہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ کمیشن کے پاس ذمہ داروں کا تعین کرنے اور تحقیقات کرنے کا اختیار نہیں اور اس خدشے کا اظہار پریزائڈنگ آفیسر جسٹس علی باقر میڈیا سے گفتگو کے دوران کرچکے ہیں۔