اسلام آباد: سپریم کورٹ نے شاہراہ دستور پر پارلیمنٹ اور عدالت عظمٰی کی جانب آنے والے راستے کو کل تک آمدورفت کے لئے مکمل طور پر کلیئر کرنے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے ممکنہ ماورائے آئین اقدام سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے دھرنوں سے متعلق حکومتی جواب داخل کرایا۔ جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی گند عدالت میں نہ لایا جائے، شاہراہ دستور پر انفرادی طور پر لوگوں کو روکا جارہا ہے۔ جس پر پاکستان عوامی تحریک کے وکیل علی ظفر ایڈووکیٹ نے کہا کہ کسی کو شاہراہ دستور پرروکا گیا تو یہ انفرادی معاملہ ہے، ہماری قیادت تقریر کرتی ہے تو لوگ بہت مشتعل ہوتے ہیں ایسے میں لوگوں کو سنبھالنا مشکل ہوتا ہے۔ جس پر جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کسی کو احتجاج سےنہیں روکیں گے مگر کسی کا بنیادی حق بھی متاثر نہیں ہونے دیں گے۔ اگر ایک آدمی کا بنیادی حق بھی ختم ہوتا ہے تو یہ غلط ہے۔ پاکستان بننے کے بعد قوم کو کوئی نعمت ملی ہے تو وہ صرف آئین ہی ہے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے پاکستان عوامی تحریک کے وکیل علی ظفر ایڈووکیٹ سے کہا کہ اگر مجمع پر ان کے قائدین کا کنٹرول نہیں بتادیں، آئین کی پاسداری نہیں ہو رہی ہے اور انارکی پھیل گئی ہے۔ ہمارا کام آئین کے مطابق تیزی سے انصاف دینا ہے، ہمیں تو سپریم کورٹ پہنچنے تک ہی کئی رکاوٹوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ جس پر علی ظفر ایڈووکیٹ نے کہا کہ ماڈل ٹاؤن میں 14 بے گناہ لوگوں کو قتل کیا گیا، پاکستان عوامی تحریک کی قیادت عوام کی آواز بنی ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے لواحقین جس تکلیف سے گزر رہے ہیں وہ اس سے بہت کم ہیں جو لوگ برداشت کررہے ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک کی قیادت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ شاہراہ دستور پر ٹریفک کی روانی کو یقینی بنائیں گے۔ علی ظفر ایڈووکیٹ کی دلیل پر چیف جسٹس امیر الملک نے ریمارکس دیئے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے،اس معاملے میں نہیں پڑرہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ معاملہ شاہراہ دستور کا نہیں بلکہ دستور کا ہے، ہڈیوں کا ڈاکٹر4 مرتبہ دماغ کی سرجری کرچکا ،اسے پانچویں مرتبہ ایسا کرنے سے روکا جائے۔
عدالت نے عبوری حکم میں کہا کہ سیاسی جماعتوں کے ڈنڈا بردار کارکن وکلااور شہریوں کی جامع تلاشی لے رہے ہیں، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کو آنے والا راستہ کل تک مکمل طور پر گاڑیوں اور افراد کی آمدورفت کے لئے کلیئر کرایا جائے۔ اٹارنی جنرل ، دونوں جماعتوں کے وکلا اور رجسٹرار سپریم کورٹ اس کا جائزہ لیں اور کل رپورٹ پیش کریں۔ کیس کی مزید سماعت اب کل ہوگی۔