|

وقتِ اشاعت :   August 28 – 2014

کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ بلوچستان کو جمہوریت اور حقوق تو مخصوص کوٹے کے مطابق ملتے ہیں لیکن دھاندلی رقبے کے اعتبار سے ہی کی جاتی ہے الیکشن میں میرا نتیجہ 28مئی تک صرف اس لئے روکا گیا تاکہ مخصوص نشستوں کا فیصلہ ان کی مرضی و منشاء کے مطابق ہوسکے بلوچستان میں انتخابات کے دوران ہونے والی دھاندلی میں ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران یا ریٹرننگ افسران کا عمل دخل نہیں بلکہ فوج اور ایف سی کا رہا ہے انتخابی دھاندلی کے خلاف اسلام آباد میں بیٹھے لوگوں کو آج میڈیا جتنی کوریج دے رہا ہے ہم تو اس سے بھی محروم رہے ہیں ’’آن لائن‘‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ بدقسمتی یہ رہی ہے کہ صرف میڈیا ہی نہیں اس ملک کے حاکمان بھی بلوچستان سے لاتعلق رہے ہیں بلوچستان کہاں ہے ہے لوگ کس طرح کی زندگی گذار رہے ہیں اس سے کسی کو ئی سروکار نہیں صرف بلوچستان کو بوقت ضرورت یاد آتاہے جہاں تک بات دھاندلی کی ہے تو گیارہ مئی کو ہونے والے انتخابات کے نتائج 11مئی کو آئے تو ہم نے دھاندلی کو دھاندلا کا نام دیا کوئٹہ میں الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے ہم نے دھرنا دیا اور یہ سلسلہ کوئی ایک ماہ تک چلتا رہا احتجاج کیا پریس کانفرنس کرتے رہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ میڈیا نے مناسب کوریج دی نہ کسی اینکر نے پوچھا نہ الیکشن کمیشن انتظامیہ حکومت سمیت کسی نے بھی ہماری فریاد نہیں سنی ہم ن ے تمام شواہد و ثبوت الیکشن ٹریبونل کے سامنے پیش کئے الیکشن کمیشن اسلام آباد تک گئے لیکن انتخابات میں ہونے والی دھاندلی سے متعلق ہماری تمام درخواستیں ردی کی ٹوکری کی نذر ہوگئیں اس کے بعد ہم یہ کہنے میں قطعاً غلط نہیں ہونگے کہ بلوچستان کو جمہوریت کوٹے کے مطابق ملتی ہے ہمارا حصہ ہمیشہ 3.5فیصد ہے گوکہ مشرف نے مہربانی کرکے اس کو5.3 کیا لیکن جو دھاندلی ہے وہ ہمارے ساتھ بلوچستان کے رقبے کے اعتبار سے ہی ہوتی ہے پنجگور میں تو انتخابات ہوئے ہی نہیں نہ صرف وہاں کے امیدواروں نے لکھ کر دیا بلکہ خود ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران نے بھی الیکشن کمیشن کو تحریری طور پر لکھا ایک اور لیٹر ہے جو ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر نے ٹریژری کو لکھا کہ انتخابات کیلئے دی جانے والی رقم کہیں خرچ نہیں ہوئی کیونکہ انتخابات نہیں ہوئے لہذا بتایا جائے کہ یہ رقم کہاں جمع کرائی جائے لیکن اس کے باوجود الیکشن کے نتائج سامنے آجاتے ہیں ہماری قومی و قبائلی روایات اس کی اجازت نہیں دیتیں اور نہ ہی ہماری سیاسی تربیت ایسی ہے کہ ہم کسی کو براہ راست نام لے کر ہدف تنقید بنائیں لیکن کوئٹہ چاغی قومی اسمبلی کی نشست پر جو جماعت مد مقابل تھی اس کے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کے ووٹ سو گنا زیادہ ہیں ہوتا یہ ہے کہ انیس بیس کا فرق ہے ہمارے امیدوار کے ووٹ رات تک 30ہزار تھے جو صبح تک 35ہزار ہونے چاہیے تھے لیکن ہمارے امیدوار کے ووٹ 25ہزار ہوجاتے ہیں اور مدمقابل امیدوار کے ووٹ 15ہزار سے 34 ہزار تک پہنچ جاتے ہیں بلوچستان میں ڈسٹرکٹ ریٹرننگ اور ریٹرننگ افسران کا اتنا عمل دخل نہیں تھا انتخابات کے دوران سب سے بڑا عمل دخل کور کمانڈر اور آئی جی ایف سی کا رہا ہے ان اداروں کے سامنے وزیراعظم وزیراعلیٰ تک جب بے بس ہوں تو پھر آر اوز یا ڈی آر اوز کی کیا حیثیت ہے اسلام آباد میں تو انتخابات میں ہونے والی دھاندلی سے متعلق آج ڈیڑھ سال بعد احتجاج کیا جارہا ہے ہم نے تو 13مئی کو ہی احتجاج کا سلسلہ شروع کیا لیکن ہمارا احتجاج میڈیا کیلئے بھی غیر ضروری رہا ہمیں وہ کوریج نہیں دی گئی جو آج اسلام آباد میں بیٹھے لوگوں کو مل رہی ہے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ خود میرے انتخابی نتائج روکے گئے اور اس کا اعلان 28مئی کو کیا گیا پورے پاکستان کہیں بھی ایسا نہیں ہوا اور نہ ہی اتنے دنوں تک کسی کا نتیجہ روکا گیا میرا نتیجہ صرف اور صرف اس لئے روکا گیا تاکہ بی این پی کی صوبائی اسمبلی میں ایک نشست کی موجودگی کا تاثر دیکر خواتین و اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کی تقسیم کی جاسکے 26اور27مئی کو مخصوص نشستوں کی تقسیم کے بعد میرے نتیجہ کا اعلان کیا گیا اس سے بڑھ کر دھاندلی اور کیا ہوگی ہمارے مینڈیٹ کو چھیننے اور ہمارا راستہ روکنے کی حتی الوسع کوشش کی گئی لیکن اس وقت کسی سیاسی جماعت میڈیا اور سول سوسائٹی نے ہمارے ساتھ ہونے والی انتخابی دھاندلی پر ہمارا ساتھ نہیں دیا شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارا احتجاج مؤثر ثابت نہ ہوسکا ۔