|

وقتِ اشاعت :   August 28 – 2014

بلوچستان میں کرپشن بہت زیادہ مشہور ہے ۔ اسلام آباد‘ کراچی اور لاہو رمیں اس کی مشہوری ہر خاص و عام کے زبان پر ہے ۔ اسلام آباد کا ہر دوسرا افسر شاہی بلوچستان میں کرپشن کا تذکرہ کرتا ہے ۔ افسوس کہ حکومت بلوچستان کی طرف سے اس کا جواب دینے والاکوئی نہیں ہے ۔ سرکاری ملازموں کو صرف اپنی تنخواہوں اور مراعات سے دل چسپی ہے ۔ وزراء صاحبان اس کو نظر انداز کرتے ہیں کہ ان کا نام اس میں شامل نہیں ہے ۔ بہر حال حکومت بلوچستان کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے ۔ اور یہ عمل اب تک جاری ہے ۔ اس کے خاتمے کے آثار نظر نہیں آتے ہیں ۔ بلوچستان میں غیر قانونی اقدامات کی مثالیں لا تعداد ہیں اور ان پر سینکڑوں مضامین لکھے جا سکتے ہیں کہ کہاں کیا ہوا اور کس نے کیا کیا ؟ مگر سب سے زیادہ دیدہ دلیری کی وارداتیں واسا میں ہوئیں ۔یہ صوبائی حکومت کی قائم کردہ خودمختار ادارہ ہے ۔ اس کی ذمہ داریوں میں یہ شامل ہے کہ وہ اپنے اخراجات خود پورے کرے ۔ حکومت کے خزانے میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔ یعنی واسا کو اپنے ملازمین کی تنخواہیں خود ادا کرنی ہیں اور باقی انتظامی اخراجات خود پورے کرنے ہیں ان کو صوبائی حکومت سے کوئی امداد نہیں مل سکتی ۔ یہ بات وزراء اور افسران کو معلوم ہے۔ اچانک ایک دن واسا کے وزیر نامدارسیکرٹری خزانہ کے دفتر میں داخل ہوئے اور ڈنکے کی چوٹ پر یہ مطالبہ کیا کہ واسا کے 500کے لگ بھگ ملازمین کو ریگولر کیا جائے ۔ وزیر اور اس کے افسران نے 500افراد بھرتی کیے تھے ان کے اپنے مطابق وہ غیر قانونی ہیں اوران کو ریگولر سیکرٹری خزانہ کرسکتے ہیں۔ وزیر صاحب گھنٹوں سیکرٹری صاحب کی منت کرتے رہے اور انہوں نے صاف انکار کیا کہ بلوچستان کے وسائل پر زیادہ بوجھ نہیں ڈال سکتا ۔ دلچسپ بات یہ ہے وہ تمام پانچ سو ملازمین وزیر صاحب کے سیاسی کارکن تھے اور وہ کوئٹہ کے رہائشی نہیں تھے۔ دوسرے اضلاع سے ان کا تعلق تھا جبکہ واسا اس کا پابند تھا اور ہے کہ وہ صرف مقامی افراد کو بھرتی کرے ۔ ان تمام پانچ سو ملازمین کے پاس کوئی تعلیمی سرٹیفکیٹ نہیں تھے اور نہ وہ کسی قسم کا کام جانتے تھے بلکہ ان تمام کے پاس کوئی ہنر بھی نہیں تھا ۔ صوبے میں سیاسی تبدیلی یا سردار اختر مینگل کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ان تمام پانچ سو غیر قانونی ملازمین کو ریگولر کردیا گیا ۔ نہ صرف یہ بلکہ آنے والے سالوں میں ان غیر قانونی ملازمین کی تعداد1700 سے تجاوز کر گئی ۔چونکہ واسا کے پاس وسائل نہیں ہیں، اس لئے ملازمین سے کہا گیا کہ وہ صوبائی حکومت کو بلیک میل کریں اور اس کو بدنام کریں تاکہ ان کی تنخواہیں غیر قانونی طورپر صوبائی حکومت ادا کرے ۔ اب نیب صاحب کہاں ہیں؟ کرپٹ وزراء کے خلاف کیوں کارروائی نہیں ہورہی ؟