|

وقتِ اشاعت :   August 30 – 2014

ارشاد مستوئی ملک کے نامور صحافی اور ان کے دو ساتھیوں کو ان کے دفتر کے اندر گھس کر دہشت گردوں نے گولیوں کا نشانہ بنایا ۔ ان تینوں مقتولین کے سر اور سینے میں گولیاں ماری گئیں اور انتہائی قریب سے ماری گئیں جس کا مقصد ان تمام لوگوں کو موقع پر ہلاک کرنا تھا ۔ وہ سب کے سب موقع پر ہی ہلاک ہوئے ۔ ابھی تک کسی دہشت گرد گروہ نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ تمام بلوچ قوم پرست حلقوں نے اس قتل عام کی مذمت کی ہے جس سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ بلوچ قوم پرست اس دہشت گردی کے واقعہ میں ملوث نہیں ۔ بلوچ عوام کی دو بڑی قوم پرست جماعتوں کے رہنماؤں نے اس واقعہ کی کھل کر مذمت کی ہے اور اس کو آزادی صحافت اورجمہوریت پر حملہ قرار دیا ۔ ان تمام حقائق کے بعد ہر شخص کا ذہن دوسری طرف جاتا ہے جو پہلے بھی 26سے زائد صحافیوں کے قتل میں ملوث تھے۔ ارشاد مستوئی آزادی صحافت اور صحافیوں کے حقوق کے زبردست علم بردار تھے اور صحافیوں کی جدوجہد میں ہمیشہ وہ صف اول میں رہے ۔ ان کو اور ان کے ساتھیوں کو کیوں نشانہ بنایا گیا یہ معلوم نہیں ہوسکا بہر حال یہ حکومت اور ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ اس بات کا نہ صرف پتہ لگائیں بلکہ ملزمان کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچائیں ۔کوئٹہ کے اس واقعہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ملزمان کو یقین تھا کہ ان کو کوئی گرفتار کرنے کی جرات نہیں کرسکتا وہ دیدہ دلیری سے کوئٹہ کے سب سے بڑی ہاؤسنگ کیمپلیکس کی دوسری منزل پر آئے اور انہوں نے تسلی سے ارشاد مستوئی اور ان کے دو ساتھیوں کو نشانہ بنایا اور اعتماد سے وہاں سے فرار ہوگئے ۔ عام قاتل کبھی یہ رسک نہیں لیتا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی موجودگی میں کارروائی کرے ۔ اس دوران ان کو گرفتار کیا جا سکتا ہے اور ان کو عوام الناس کی جانب سے گولی بھی ماری جا سکتی ہے۔ عام عادی مجرم یہ تمام احتیاط برتتا ہے اور ایسے کام سے گریز کرتا ہے ۔ البتہ وہ دہشت گرد جس کو یہ یقین ہو کہ پولیس اس کو گرفتار نہیں کرسکتی اگر گرفتار ہو بھی گئے تو وہ ’’محفوظ ہاتھوں‘‘ میں ہوں گے۔ لہذا حکومت کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے کہ وہ ہر قیمت پر حقیقی قاتلوں اور ان کے سرپرستوں کو گرفتار کرے تاکہ لوگوں کا قانون کی حکمرانی پر اعتماد بحال ہو ۔ صوبائی حکومت کے گزشتہ دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے کہ امن عامہ کی صورت حال میں بہتری آئی ہے ۔ ایک ہی دن میں تین صحافیوں کو کوئٹہ میں موت کے گھاٹ اتارا گیا اور چھ معصوم افراد کو آواران کے علاقے میں قتل کیا گیا اور آٹھ افراد کو زخمی جب ان کے عبادت خانے پر دہشت گردوں نے حملہ کیا اور فائرنگ کی ۔