جی آر ملا رحلت فرما گئے، ان کا پورا نام غلام رسول ملا تھا ۔ مرحوم بلوچی کے ایک بہت بڑے اور مایہ ناز شاعر تھے ۔ انہوں نے متعدد کتابوں کو تصنیف کیا اورچند ایک شعری مجموعے لکھے ۔ زندگی کے ابتدائی ایام انہوں نے گلف ممالک میں گزارے، اُس وقت یہ ممالک برطانیہ کے کنٹرول میں تھے اور آزاد نہیں ہوئے تھے ۔ 1960 کی دہائی میں جی آر ملا واپس بلوچستان آگئے اور کراچی میں اپنا کاروبار شروع کیا ۔ان کا آبائی گاؤں جیونی میں ہے لیکن ان کا زیادہ تر وقت گوادر اور کراچی میں گزرا ۔ ان کا گھر ادیبوں ‘شاعروں اور سیاسی کارکنوں کا مرکز تھا۔ کسی بھی شاعر اور ادیب کو تلاش کرنا ہوتا تو لوگ جی آر ملا کے گھر پہنچ جاتے تھے اور ان کی ملاقات مطلوبہ ادیب یا شاعر سے ہوجاتی تھی ۔ جی آر ملا عوامی شاعر تھے اور اکثر بزنجو مرحوم کے جلسوں میں ترانے اور نظمیں پڑھتے تھے جس کو عوام الناس کی جانب سے زبردست پذیرائی ملتی تھی ۔ سندھ اور بلوچستان کے وہ مشہور شخصیت تھے ۔ قوم پرست رہنماؤں سے ان کے ذاتی مراسم تھے ۔ وہ ایک خوددار انسان تھے اور حکومت یا حکومتی رہنماؤں کی قربت پسند نہیں کرتے تھے ۔ گو کہ بعض اعلیٰ مرتبت لوگ ان کے مداح تھے اور ان کی شاعری کے دلدادہ تھے ۔ مگر جی آر ملا ان سے دور رہنا پسند کرتے تھے بلکہ وہ غریب سیاسی کارکنوں کے درمیان رہنا زیادہ پسند کرتے تھے۔ جی آر ملا کو کئی بار گرفتارکیا گیا لیکن ان کی نظر بندی زیادہ طویل نہیں ہوتی تھی اور حکمران جی آر ملا کو سیاسی کارکن یا رہنما ء کی بجائے شاعر سمجھتے تھے ۔وہ ایک نفیس اور شریف انسان تھے ۔ اکثر نوجوانوں کواچھی اچھی باتوں کی تلقین کرتے تھے ان کی شاعری میں آزادی کا عزم بھرپور انداز میں نظر آتا تھا ۔ان کی شاعری میں ابہام نہیں تھا چونکہ وہ لفظوں کے بادشاہ تھے، بلوچستان کے موجودہ حالات کی وہ واضح طریقے سے عکس بندی کرتے تھے جس سے لوگوں کو یہ احساس ہوجاتا تھا کہ وہ مظلوم اور مغلوب قوم ہیں۔ ان کو بنیادی سیاسی ‘ معاشی ‘ قومی اور علمی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے ۔ وہ بلوچی کے واحد شاعر تھے جو عام زندگی میں ڈسپلن کے پابند تھے ۔ وقت کی پابندی خاص طورپر کرتے تھے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی مشاعرے میں وہ دیر سے آئے ہوں یا جلسہ شروع ہونے سے پہلے اسٹیج پر موجود نہ ہوں۔ بلوچستان کی قوم پرست سیاست میں یہ روایت رہی ہے کہ موقع پر موجود کوئی نامور شاعر اپنے کلام سے جلسے کی ابتداء کرتا تھا ۔ جی آر ملا ایک زبردست مقرر بھی تھے ۔وہ اپنا کلام پڑھنے سے قبل زبردست تقریر فرماتے تھے جو ملک کے اندر سیاسی صورت کا مکمل احاطہ کرتا ۔جی آر ملا کے انتقال سے بلوچی زبان ایک زبردست قلم کار اور شاعر سے محروم ہوگیا ۔