|

وقتِ اشاعت :   September 3 – 2014

بلوچستان کی شورش نے صوبے کو اچھے خاصے نقصان سے دو چار کر رکھا ہے ۔ اس منظرنامے میں بہت سو ں کا بھاری نقصان ہوا ہے ۔ ان برسوں میں گویا قتل عام کا چلن عام ہو چلا ہے۔ مزدور مرے، تاجر مرے ، سیاسی کارکن ورہنماؤں کو جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا، ڈاکٹروں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ، اساتذہ کا کام تمام ہوا ، پولیس اور فورسز نشانہ بنے، خواتین اور بچوں اور بزرگوں کی جان بخشی بھی نہ ہوئی اور تو اور ذرائع ابلاغ کے شعبے سے وابستہ افراد کو بھی نہیں بخشا گیا۔ اس خرابے میں ہر تخریب پسند فرد و گروہ نے بقدر جثہ اپنا حصہ ڈال رکھا ہے۔ نہ ریل نہ سڑک اور نہ کوئی بازار و تفریح گاہ محفوظ رہی ہے۔ عوام کے اعصاب پر موت اور عفریت کا خوف سوار ہے۔ سرکار کی رہائشگاہوں اور دفاتر پر کڑے پہرے موجود ہیں۔ اہل قلم کے بازو کاٹے جارہے ہیں ، لب یا تو سیے جاتے ہیں یا پھر زبان کاٹ دی جاتی ہے۔ خاموش رہنے کا حکم دیا جاتا ہے یا پھر رگ جان کاٹ دی جاتی ہے۔ اہل صحافت کو زندگی یا موت میں سے ایک کا انتخاب کرنے کا گویا عملاًحکم دیا جاچکا ہے۔ یقیناًایسا ہی ایک فرمان ارشاد مستوئی کی حیات بارے پایہ تکمیل کو پہنچا۔ ارشاد مستوئی کی زندگی کا قصہ نادیدہ افراد نے 28اگست کی شام کو تمام کردیا۔اہل صحبت نے پھر جنازے اٹھائے ، پھر بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھیں۔ پریس کلبوں پر سیاہ جھنڈیاں لہرائے۔ اس احتجاج سے ان کا کچھ بننے والا نہیں، ہوگا وہی جو نادیدہ ہاتھ چاہیں گے ۔ بلوچستان پاکستان کا وہ صوبہ ٹھہرا ہے جہاں صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گرد حملوں میں ہلاکت کی فہرست بہت طویل ہے۔ ارشاد مستوئی اور ان کے دو ساتھیوں کے قتل کے بعد اس فہرست نے چالیس کا ہندسہ سر کرلیا ۔تعجب اور افسوس اس بات پر ہے کہ اب تک نہ کوئی ملوث کارندہ پولیس یا کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے کی گرفت میں آیا ہے اور نہ ہی وجوہات ، محرکات و اسباب معلوم کرنے کی خاطر جوڈیشل کمیشن قائم کیا جاسکا ہے جس کا وعدہ حکومت پچھلے سال کرچکی ہے۔ اس بار تو اپنی نوعیت کے لحاظ سے واردات الگ طریقے سے کی گئی۔ یعنی سفاک قاتلوں نے دفتر میں گھس کر خون ناحق بہایا ۔ ارشاد مستوئی آن لائن نیوز ایجنسی کے بیورو چیف تھے،ایک فعال صحافی و رپورٹر تھے۔ بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے سیکریٹری جنرل تھے ۔ وہ نجی نیوز چینل اے آر وائی کے ساتھ بھی بطور اسائمنٹ ایڈیٹر وابستہ تھے ،تاہم قتل کا لرزہ خیز سانحہ آن لائن کے آفس میں پیش آیا ۔ یہ مغرب کی نماز کے بعد کا وقت ہے کہ مسلح شخص ان کے آفس میں داخل ہوا، اور کمرے میں موجود ارشاد مستوئی اور اس کے دونوں ساتھیوں کو فائرنگ کرکے ماردیا۔ یہ خونی کھیل کبیر بلڈنگ کی دوسری منزل میں کھیلا گیا۔ اس بلڈنگ کے مذکورہ پورشن میں اخبارات،خبر رساں اداروں،ٹی وی چینل اور غیر ملکی نشریاتی ادارے( وائس آف امریکہ) کا دفتر بھی ہے۔ عمارت کے دیگر حصوں میں بھی میڈیا کے دفاتر ہیں۔رش والی جگہ ہے۔ قاتل ارشاد مستوئی کو ہی مارنا چاہتے تھے ، شناخت کی خوف سیدیگر دو افراد کو بھی نشانہ بنایا۔ سوال یہ ہے کہ ارشاد مستوئی کو دفتر کے اندر کیوں قتل کیا گیا ؟وہ اس لئے کہ قاتلوں کے اس نادیدہ گروہ یا طاقت نے تمام صحافیوں کو واضح پیغام دیدیا کہ وہ اپنے اپنے دفتروں میں بھی ان کے خونی دسترس سے باہر نہیں ہیں۔ وگرنہ ارشاد مستوئی جان محمد روڈ پر کرائے کے مکان میں اپنی اہلیہ ،دو کمسن بیٹیوں اور ایک چھ ماہ کے بیٹے کے ساتھ رہائش پذیر تھااور وہ معمول کے مطابق رات بارہ بجے کے بعد گھر پیدل جاتے تھے۔ دفتر سے گھر تک کسی بھی جگہ آسانی سے ٹارگٹ کیا جاسکتا تھا بالخصوص جان محمد روڈ پر تو رات کے وقت آوارہ کتوں کے علاوہ آدم ذات کا نشان تک نہیں ہوا کرتا۔ چنا چہ دفتر کے اندر مارنے کا چناؤ حکمت اور منصوبے کے تحت کیا گیا۔ قاتلوں نے تین خاندانوں کو اجھاڑ دیا۔ ارشاد مستوئی گھر کا واحد کفیل تھے ، بڑی محنت اور تکلیفوں کے بعد اس مقام پر پہنچے تھے ، غربت کی طویل زندگی بسر کی۔ غالباً2010ء میں گوادر کے ایک ہوٹل میں کرنٹ لگنے کے باعث موت و زیست میں مبتلا ہوگئے تھے ۔کئی روز کراچی کے آغا خان اسپتال میں زیر علاج رہے۔ ڈاکٹروں کو آخر کار دایاں ہاتھ کاٹنا پڑاکہ بجلی کے شدید کرنٹ کے باعث ناکارہ ہوچکا تھا۔معذوری کے باوجود گھر نہیں بیٹھے اور بائیں ہاتھ سے لکھنے کی مشق کرتے کرتے خود کو لکھنے کا عادی بنایا۔مختلف اخبارات و رسائل میں سیاسی و ادبی موضوعات پر لکھتے تھے ، رنگ ٹی وی اور روہی ٹی و ی کے علاوہ ایکسپریس کے ادارے سے بھی منسلک رہا۔ عبدالرسول تو بالکل نوخیز تھے جامعہ بلوچستان میں صحافت کے شعبے میں سال دوئم کا طالب علم تھا۔ جیو ٹی وی میں حال ہی میں انٹرن شپ کرکے فارغ ہوئے تھے ۔ آن لائن میں بطور رپورٹر اور کمپیوٹر آپریٹر وابستہ تھے۔ میری ان سے دو ماہ قبل ملاقات ہوئی ، مودب اور ہنس مکھ نوجوان تھا ۔ میں نے اسے کہا کہ آپ کا نام (عبدالرسول) شرعی و معنی کے لحاظ سے درست نہیں ہے نا م بدلنے کی کوشش کرو کیونکہ ہم رسول ؐ کے نہیں بلکہ اللہ کے بندے ہیں۔ اس پر وہ مسکرائے اور جواباً کہا کہ اسے بھی معلوم ہوچکا ہے۔ شومئی قسمت کہ یہ نوجوان اپنے نام کے ساتھ ہی منوں مٹی تلے ہمیشہ کی نیند سو گیا۔ ارشاد مستوئی کو ان کے آبائی علاقے جیکب آباد میں انتیس اگست کو دفنایا گیا ۔ عبدالرسول کو سبی میں جبکہ محمد یونس کی تدفین کوئٹہ میں ہوئی۔ ارشاد مستوئی کے نماز جنازہ میں پاکستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ جو کراچی کے دورے پر تھے اطلاع ملنے پر جیکب آباد پہنچ کر شرکت کی۔ نماز جنازہ کے بعد جیکب آباد میں احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا جس میں سینئر صحافی شہزادہ ذوالفقار اور بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر عرفان سعید بھی شریک تھے۔ شہزادہ ذوالفقار ،عرفان سعید ، سینئر فوٹوگرافر موسیٰ فرمان اور سینئر کیمرہ مین ندیم ملک اس رات ہی میت کے ساتھ جیکب آباد روانہ ہو گئے تھے ۔کوئٹہ میں سانحہ کی رات کوئٹہ پریس کلب کے صدر رضا الرحمان اور سینئر صحافی سلیم شاہد کی قیادت میں سول اسپتال سے ریلی نکالی گئی اور وزیراعلیٰ ہاؤس کے قریب مظاہرہ کیا گیا۔ اگلے روز کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج ہوا ۔ دس روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا۔ میڈیا ایکشن کمیٹی کی جانب سے اتوار اکتیس اگست کو بھی کوئٹہ میں ریلی و مظاہرے کا انعقاد کیا گیا۔ بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے واقعہ کی مذمت کی ۔ بلوچستان اسمبلی میں تیس اگست کے اجلاس میں مذمتی قراردا د منظور کرلی گئی۔ صحافتی تنظیموں کا مطالبہ میڈیا کے دفاتر کی سیکورٹی کے علاوہ متاثرہ خاندانوں کی مالی امداد اور بطور خاص جوڈیشل کمیشن کا جلد سے جلد قیام ہے۔ ارشاد مستوئی اور ان کے ساتھیوں کے قتل کی تحقیقات اعلیٰ سطح پر ہورہی ہے۔ امید ہے کہ ملزمان بے نقاب ہوں گے اور ان کے گریبان پر ہاتھ ڈالا جائیگا ۔ یہاں قاتل ٹولے سے سوال ہے کہ کیا ارشاد مستوئی کا جرم اتنا سنگین اور ناقابل رعایت تھا کہ اس سے زندگی کا حق چھین لیا گیا؟۔ اگر فی الواقعی وہ ان کی دانست میں کسی خطا اور جرم میں ملوث تھے تو کیا اسے سمجھایا یا ڈرایا نہیں جاسکتا تھا؟۔ زندگی چھیننے کی بجائے ارشاد کو گھر بیٹھنے پر مجبور کرتے تاکہ بوڑھی ماں جواں بیٹے اور بیوی شوہر سے محروم تو نہ ہوتی ۔اور تین معصوم بچے باپ کے سایہ شفقت سے محروم تو نہ ہوتے ،لیکن ایسا سلوک تو شاید جنگلی درندے بھی نہ کرتے ہوں ۔ یہاں سوال میڈیا کے دوستوں سے بھی ہے کہ کیا وہ اپنے رویوں اور طرز عمل میں تبدیلی لاسکتے ہیں کہ وہ صحافت کے پیشے سے اتنا ہی انصاف کریں جتناکہ اس کا حق ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ میڈیا سے وابستہ افراد نہ صرف ایک دوسرے کے پاؤں کھینچنے پر تلے ہوئے ہیں بلکہ زندگیوں کے درپے ہیں۔غرض اب امتحان ہے حکومت کا جس کا یہ دعویٰ ہے کہ حکومت اور تمام ادارے ایک صف پر ہیں ۔اب انتطار ہے اس لمحے کا کہ جب اس قتل نا حق میں ملوث نادیدہ ہاتھ بے نقاب ہوں گے ۔؟