|

وقتِ اشاعت :   September 3 – 2014

واشنگٹن: اسلام آباد میں جاری موجودہ سیاسی بحران کے تصفیے کے لیے امید کی پہلی کرن ظاہر ہونے کے ساتھ امریکا نے منگل کے روز تمام فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے اختلافات کو ’’پُرامن مذاکرات‘‘ کے ذریعے حل کریں۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان نے واشنگٹن میں ایک نیوز بریفنگ کے دوران محتاط نکتہ نظر اپناتے ہوئے یہ پیش گوئی کرنے سے انکار کردیا کہ اس سیاسی تعطل کا خاتمہ کیسے ہوگا۔ تاہم انہوں نے مخالف جماعتوں پر زور دیا کہ وہ پاکستان میں جمہوریت کی مضبوطی کے لیے کام کریں۔ اس سے پہلے کے بیانات میں امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے حکومت کو گرانے کی تمام پُرتشدد کوششوں کی مخالفت کی تھی اور یہ بھی واضح کردیا تھا کہ پاکستان میں تبدیلی لانے کے لیے کسی بھی ’’ماورائے آئین‘‘ اقدامات کی مخالفت کی جائے گی۔ لیکن منگل کے روز کی بریفنگ کے دوران ترجمان جین ساکی نے حکومت اور مظاہرین کے درمیان مصالحت کی ضرورت پر زور دیا۔ جب امریکی اہلکار کو آگاہ کیا گیا کہ پاکستانی پارلیمنٹ میں موجود حزبِ مخالف کی تمام جماعتوں نے وزیراعظم نواز شریف کی حمایت کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی برطرفی کے لیے کی جانے والی کسی بھی قسم کی ماورائے آئین کوششوں کی مزاحمت کی جائے گی، تو انہوں نے کہا ’’ہم پاکستان میں جاری صورتحال کو نہایت قریب سے دیکھ رہے ہیں، اور ہم اپنے مناسب ہم منصوبوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔‘‘ جب ایک صحافی نے سوال کیا کہ اگر وہاں نواز حکومت کے خلاف فوجی بغاوت ہوجاتی ہے تو امریکا کا ردّعمل کیا ہوگا، اس کے جواب میں جین ساکی نے کہا ’’میں نے نتائج کے حوالے سے کسی طرح کی پیش گوئی کی ہے، ہم روایتی طور پر ایسا نہیں کریں گے۔‘‘ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے ایک بار پھر یہ واضح کیا کہ امریکا پاکستان میں جاری موجودہ سیاسی تنازعے میں سیاسی جماعتوں کے درمیان کسی بات چیت یا مصالحتی عمل میں شریک نہیں ہے۔ تاہم انہوں نے امریکا کے اس مؤقف کو دوہرایا کہ ان تمام جماعتوں کو مل کر کام کرنا چاہیٔے اور اپنے اختلافات کو ایک پُرامن مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہیٔے جس کے ذریعے پاکستان میں جمہوریت مضبوط ہوگی۔ انہوں نے سابق امریکی سفیر کیمرون مینٹر کے اس بیان پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر پاکستان میں فوجی بغاوت ہوتی ہے تو امریکا اس پر پابندیاں عائد کردے گا۔