|

وقتِ اشاعت :   September 4 – 2014

کوئٹہ : یہ تاثر عام ہے کہ بلوچستان کے حقوق کیلئے اگر دس لاکھ کا مجمع بھی اسلام آباد لے جائیں توکوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران اے این پی کے سینیٹر زاہد خان نے جب اپنی بات شروع کی انہوں نے کہاکہ آج جوکچھ اسلام آباد کے ریڈزون میں ہورہا ہے اور جو مطالبہ کیاجارہا ہے اگر ان کا تعلق بلوچستان، سندھ یا خیبرپختونخواہ سے ہوتا تو انہیں غداری کا سرٹیفکیٹ دیاجاتا……!ان کا مزید کہنا تھا کہ آج پنجاب سے تعلق رکھنے والے دوافراد یہ ساراتماشا رچارہے ہیں مگر ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیاجارہاجو ایک غلط تاثر جارہا ہے کیونکہ ان دونوں افراد کا تعلق پنجاب سے ہے……!یقیناًسینیٹرزاہد خان کی اس بات کی تائید ہر ذی شعورکرے گا،،،،،،ماضی کی سیاست اس بات کی گواہ ہے کہ تینوں صوبوں سے تعلق رکھنے والے قوم پرست پارٹیوں کے قائدین نے طویل جیل کاٹی، سخت قید وبند کی صعوبت میں رہے،،،،،مشرف دور میں نواب اکبر خان بگٹی کا واقعہ پیش آیا،،،،،،بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اخترجان مینگل کے مارچ کو کس طرح روکا گیا اور انہیں پنجرے میں بند کردیا گیا،،،،،،زرداری حکومت کے دوران سردار اخترجان مینگل اسلام آباد گئے انہوں نے چھ نکات پیش کیے مگر……..! زرداری دور حکومت میں ہی طاہر القادری نے اسلام آباد میں دھرنا دیا توحکومت کی پوری کابینہ وہاں پہنچی مگر سردار اخترجان مینگل سے حکومت سے تعلق رکھنے والے کسی فردنے ملاقات کرنا بھی گوارا نہیں سمجھا……! یہ وہ رویے ہیں جن کے باعث آج تک بلوچستان میں وہ سیاسی ماحول نہیں بن پارہا جس کی توقع کچھ زیادہ کی جارہی ہے…….! مگرموجودہ حکومت جو مینڈیٹ کے ساتھ آئی ہے،سیاسی ماحول میں بہتری کیلئے کوئی بھی ایک ٹھوس قدم…..؟ معاملات آج بھی اس صوبے کے جوں کے توں ہیں،،،،،تین بار بلوچستان مسئلے پر آل پارٹیز بلانے کے اعلانات ہوئے، 2013کے دسمبر ، 2014ء کے جنوری اور فروری کے اواخرمیں،مگر اب تک اس کا کوئی میکنزم بھی نہیں بنایاگیا…..! اگر عمران خان اور طاہر القادری کومنانے کیلئے پوری پارلیمنٹ کی مشینری حرکت میں آسکتی ہے، تو بلوچستان مسئلے پر کیوں نہیں…….؟ آج تو بلوچستان میں قوم پرست جماعت بھی حکومت میں شامل ہیں، گورنراور وزیراعلیٰ دونوں کا تعلق قوم پرست جماعتوں سے ہیں، پھر بھی وہ بے اختیار ہیں تو،،،،،عوامی مینڈیٹ کا اتنا ڈھنڈوراکیوں…….؟ آج بھی کسی نہ کسی طریقے سے بلوچستان مسئلے کا حل نکالاجاسکتا ہے، اگرسنجیدگی سے وفاق اور صوبائی حکومت توجہ دیں……!وگرنہ ماضی کے حکمرانوں اور آ پ میں کوئی فرق نہیں رکھاجائے گا……! سینیٹرزاہد خان کے گزشتہ روز پارلیمنٹ ہاؤس پر کی گئی گفتگو کو مدنظر رکھ کر یہاں کے سیاسی ماحول کو بہتربنانے کیلئے کوششیں شروع کی جائیں تاکہ معاملات مزید بندگلی کی طرف نہ جائیں…..! آج وقت اور حالات کی اہم ضرورت ہے کہ اکائیوں کو ان کے حقوق دیئے جائیں تاکہ ملک میں جمہوریت مضبوط اور مستحکم ہونے کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔