بلوچستان سمیت ملک بھر کو درپیش چھوٹے بڑے مسائل میں سے خوراک کی کمی یا غذائی قلت کا مسئلہ بھی شامل ہے جسے نہ حکومتی سطح پر بہت زیادہ سنجیدگی سے لیا جارہا ہے اور نہ ہی عوامی سطح پر اس حوالے سے کوئی خاص ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جارہا ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ غذائی قلت کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے سنجیدگی کے ساتھ فوری نوعیت کے دوٹوک اقدامات نہیں اٹھائے گئے تو آنے والے وقتوں میں یہ مسئلہ زیادہ سنگین صورتحال اختیار کرسکتا ہے جس سے ہم ایک نئی بحرانی کیفیت سے دوچار ہوجائیں گے، ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میںآبادی کا ایک بڑا حصہ غذائی قلت کا شکار ہے ، غذائی قلت میں جہاں دیگر عوامل کا عمل داخل ہے وہاں موسمیاتی تبدیلی، عالمی حدت جس سے زیادہ یا کم بارشوں کا ہونا شدید سیلاب آنا اور صحرازدگی اہم محرکات ہیں، جس کا انداز۱صوبہ سندھ اور بلوچستان میں 2010اور 2012کو آنے والے تباہ کن سیلابوں سے بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے، اگرچہ غذائی قلت پورے ملک کا مسئلہ ہے تاہم بلوچستان میں یہ مسئلہ گزشتہ کچھ عرصے سے زیادہ سنگینی سے ابھر کر سامنے آیا ہے بالخصوص 2010ء اور2012ء کے تباہ کن سیلاب اس مسئلے کی بڑھوتری کا محرک بنے اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف جہاں فروٹ باسکٹ کہلانے والے صوبہ بلوچستان میں لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں وہاں صوبے کا گرین بیلٹ کہلانے والا علاقہ اس کا سب سے زیادہ ہدف بنا ہوا ہے کیونکہ 2010ء اور 2012ء کے تباہ کن سیلابوں کے اثرات تاحال سندھ سے متصل اضلاع نصیر آباد ، جعفرآباد اور جھل مگسی میں موجود ہیں واضح رہے کہ سیلاب سے تینوں اضلاع بہت بری طرح متاثر ہوئے تھے جہاں ایک سو سے زائد اموات کے علاوہ ، سینکڑوں کی تعداد میں مال مویشی اور ہزاروں ایکڑزرعی زمین متاثرہوئی وہاں ان تباہ کن سیلابوں سے سینکروں چھوٹے بڑے دیہات بھی زیر آب آگئے اور لوگ اپنے ساز وسامان اور قیمتی اشیاء وغیرہ سے بھی محروم ہوگئے، جعفرآباد میں 2010کے سیلاب کی شدت کا اندازہ گورنمنٹ پرائمری سکول گوٹھ فتح محمد کھوسہ کی حالت زار سے لگایا جاسکتا ہے یہ گاؤں ضلعی ہیڈ کوارٹر ڈیرہ اللہ یار میں واقع ہے یہ علاقہ سیلابی ریلے میں 5فٹ تک ڈوب گیا تھا کچے مکانات تو منہدم ہوگئے تاہم پکی عمارتیں باقی رہ گئیں گاؤں کے سکول ٹیچر عبدالعزیز سیلاب کی تباکاریوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’سیلاب لوگوں کا سب کچھ بہا کے لے گیا، لوگ اپنی چھتوں سے محروم ہوگئے اور دو سال گزر جانے کے باوجود دو وقت کی روٹی کے لئے ترس رہے ہیں، جس سے خواتین اور بچے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں‘‘ ان کا کہنا ہے کہ 2012کے سیلاب سے قبل اس پرائمری سکول میں 120بچے تھے لیکن یہ تعداد اب سکڑ کر 60رہ گئی ہے جو بچے سکول آتے ہیں وہ غذائی قلت کا شکار ہیں اور یہ ان کی کمزور جسامت سے واضح ہے، سیلابوں کے بعد حکومت کی طرف سے طویل مدتی اقدامات نہ ہونے کے سبب متاثرین بالخصوص کسان اور زمیندار اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہوسکے اس پورے علاقے میں ان دنوں لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد غذائی قلت کا شکار ہے غذائی قلت کا شکار ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں ۔اور بلوچستان جس کے سوائے تین اضلاع نصیر آباد، جعفرآباداور جھل مگسی کے دیگر تمام اضلاع میں زراعت کا انحصار بارشوں اور کاریز ات پر ہے ، بلوچستان اور ہمسائیہ ممالک ایران اور افغانستان میں 1997سے2003تک طویل قحط پڑی تھی جس سے بلوچستان میں غذائی قلت اپنے انتہا کو پہنچی، ایک سروے کے مطابق بلوچستان میں طویل قحط سالی سے بلوچستان کے زراعت اور بلخصوص مختلف پھلوں کے باغات کو شدید نقصان پہنچاوہاں ہزاروں لوگ جن کا پیشہ زراعت اور گلہ بانی سے وابستہ تھا شہروں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبورہوگئے، جعفرآباد میں جہاں شدید سیلابوں نے تباہی مچادی تھی وہاں اس سال دریا میں پانی کی کمی کا بھی سامنا ہے جس سے سینکڑوں ایکڑ زراعی زمین بنجر ہوگئی ہے ۔ ضلع جعفرآباد کے ایک کسان غلام حسین چانڈیا کا کہناہے کہ انکے سمیت سینکڑوں کسان مزدوری کرنے پر مجبور ہیں، ایک طرف سیلابوں نے زرعی زمین اورنہروں کو شدید نقصان پہنچایادوسری جانب اس سال دریامیں کم پانی ہونے کے سبب ہزاروں ایکڑ زمین بنجر ہوکر رہ گئی ہے اس لئے ان کے لئے دو وقت کی روٹی حاصل کرنامشکل ہوگیا ہے اور مجبوراً وہ اپنی بنجر زمین کو یونہی چھوڑ کر محنت مزدوری پر مجبور ہیں ۔ غلام حسین چانڈیا صرف ایک مثال ہے ورنہ ان جیسے چھوٹے چھوٹے زمینداروں کی ایک بہت بڑی فہرست ہے جو زرعی پانی دستیاب نہ ہونے کے باعث اپنی زمینیں چھوڑ کر محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں اور د ووقت کی روٹی کو ترسنے لگے ہیں ماہرین کا کہنا ہے کہ ان اضلاع میں ایک بہت بڑی زرعی اراضی کا بنجر ہونا بھی ان اضلاع میں غذائی قلت کا محرک ہے ۔ غذائی قلت میں اضافے اور لوگوں کی خوراکی اشیاء تک رسائی کی وجوہات جو بھی ہوں مگریہ مسئلہ سنجیدگی سے نوٹس لینے کا تقاضہ کرتا ہے اگراب اس جانب توجہ نہیں دی گئی تو صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے سو ضروری ہے کہ نہ صرف متعلقہ سرکاری حکام اس جانب توجہ دیں بلکہ حکومت کے ساتھ ساتھ غیر سرکاری تنظیمیں بھی میدان عمل میں آئیں اور ان اضلاع میں غذائی قلت کی بڑھتی ہوئی شرح کو کم کرنے کے لئے منصوبہ بندی کی جائے ۔