|

وقتِ اشاعت :   September 4 – 2014

پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں دھویں دار تقاریر ہوئیں ۔ ممبران نے دل کھول کر باتیں کیں کہ چند ہزار مظاہرین نے پورے ملک کو یرغمال بنا رکھا ہے ۔ چند ہزار بلوائی پولیس سے لڑ رہے ہیں ۔ سینکڑوں پولیس والے زخمی ہوئے ۔ مولانا فضل الرحمان کاخیال ہے کہ پولیس کے ہاتھ باندھ دئیے گئے ہیں ۔ اور بلوائیوں کو ہر طرح کے ’’ آلات ‘‘ سے مسلح کیا گیا ۔ 130سے زیادہ پولیس والے بشمول ایس ایس پی شدید زخمی ہوئے ۔ پارلیمان میں اس بات کی تردید کی گئی کہ پولیس نے بلوائیوں پر کسی موقع پر گولیاں چلائیں ۔ البتہ کیمرہ نے یہ ضرور دکھایا کہ ایک ایک کرکے پولیس والوں کوتشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ دوسری جانب عمران خان اور ڈاکٹر قادری پولیس والوں کو دھمکیاں دیتے رہے اور ان کو بلوائیوں سے نمٹنے سے باز رکھنے کی کوشش کرتے رہے ۔ ویسے بھی پورا ریڈ زون اور پارلیمنٹ ہاؤس پر لوگوں کا قبضہ ہے ۔ لوگوں نے مستقل ٹینٹ لگا رکھے ہیں ،ان کو ریڈ زون سے کوئی نہیں نکالتا۔ پارلیمان کے اراکین مشترکہ اجلاس میں پچھلے دروازے سے داخل ہوئے ۔ بہر حال پارلیمان کا مشترکہ اجلاس پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک مثال ثابت ہوگا۔ بعض ممبران کا خیال تھا کہ تیسری قوت حکومت کو بر طرف کرسکتی ہے ۔ اس لئے انہوں نے پارلیمان کا طویل اجلاس طلب کر لیا ہے ۔ ممبران طویل تقاریر کررہے ہیں ۔ اسپیکر ان کو نہیں ٹوکتے کہ وقت کم ہے اپنی تقریر کو مختصر کریں ۔ جتنا وقت ممبران چاہتے ہیں اسپیکر ان کو عنایت کرتے ہیں ۔ یا ایک تقریر کے بعد دوسرے رکن کو مائیک دیا جاتا ہے ۔ ان سب کا موقف ہے کہ جمہوریت اور خصوصاً پارلیمانی جمہوریت پاکستان کیلئے مناسب ہے ۔ اس بساط کو کسی بھی صورت لپیٹنے نہیں دیا جائے گا۔ ان ممبران او رپارٹیوں کو خوف ہے کہ قادری اور عمران خان تیسری قوت کے اشارے پر اتنے دلیر ہوگئے ہیں اور پورے نظام پر تابڑ توڑ حملے کررہے ہیں ۔ اور دھمکیاں دے رہے ہیں کہ گھنٹوں میں حکومت کا خاتمہ ہوجائے گا۔ حالانکہ بلوائی اور مظاہرین چند ہزار ہیں اور سیکورٹی فورسز کی تعداد تیس ہزار سے زائد ہے ۔ ناقدین یہ الزام لگا رہے ہیں کہ پولیس کو کارروائی سے روکا جارہا ہے جبکہ مظاہرین نے ریاست کی بہت سی بلڈنگوں پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ پی ٹی وی پر گھنٹہ بھر کا قبضہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان کو کہیں سے یہ یقین دہانی ملی ہے کہ توڑ پھوڑ اور کیمروں کو چوری کرنے اور ٹرانسمیشن کو بند کرنے پر ان کو کچھ بھی نہیں کہا جائے گا۔ یہی ہوا کوئی گرفتاری نہیں ہوئی ۔ تمام بلوائیوں کو پیار اور محبت سے پی ٹی وی اسٹیشن سے نکالا گیا البتہ حکومت نے دباؤ میں آ کر اس کا مقدمہ درج کر لیا ۔ مقدمہ میں طاہر القادری اور عمران خان کو بھی نامزد کیا گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ گرفتاریاں کب ہوں گی اور بلوائیوں کو سخت سزائیں کب ملیں گی؟ بہرحال لوگوں کی ہمدردیاں اپنے نمائندوں کے ساتھ ہیں گوکہ ان میں بہت سی خرابیاں ہیں ۔