|

وقتِ اشاعت :   September 6 – 2014

شورش زدہ بلوچستان کی صحافت میں تاریخ رقم کرنے والے ارشاد احمد مستوئی 14اپریل1977ء کوبلوچستان کے علاقے علی آباد تحصیل تمبو میں پیدا ہوئے۔ حاجی خان مستوئی کے ہاں پیداہونے والے چار بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے جبکہ ان کا خاندان شروع سے ہی بائیں بازو کی سیاست سے وابستہ رہے۔ ساتھی نونہال سنگت، ڈی ایس ایف اور پھر کمیونسٹ پارٹی سے وابستگی رہی۔ 1990ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد پاکستان میں کامریڈز جب بکھر گئے تب بھی یہ خاندان اپنے نظریات پہ مستحکم رہا۔ نئی صدی اس خاندان کے لیے دکھوں اور غموں کے لامتناہی سلسلے کا آغاز ثابت ہوا۔ اگست 2000ء میں اس خاندان کے رہنماء اور ارشاد مستوئی کے والد میر حاجی خان وفات پا گئے۔ ستمبر2009ء میں بڑے بیٹے ڈاکٹر سعید مستوئی گردوں کی تکلیف کے باعث دوران علاج 47برس کی عمر میں فوت ہو گئے۔ دو برس بعد دوسرے بھائی خورشید مستوئی کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوکر اپریل 2011ء میں 37برس کی عمر میں وفات پا گئے،والد اور دو بھائیوں کے بعد گھر کا واحد کفیل ارشاد مستوئی ہی رہے تھے جبکہ بچپن سے اس خاندان کے ساتھ رہائش پذیر بھتیجے گل مستوئی کو بھی بڑے بھائی کا درجہ حاصل تھاجو علاقے میں دیگر گھریلو معاملات سنبھالتا تھا۔ خورشید مستوئی کے انتقال کے محض تین برس بعد 37برس کی عمر میں ہی ارشاد مستوئی کو 28اگست 2014ء کو کوئٹہ میں صحافتی سرگرمیوں کے دوران شہید کر دیا گیا۔ ارشاد احمد مستوئی سے رابطہ 2007ء میں ہوا جو سلام دعا تک محدود تھا لیکن چار سال قبل جب کوئٹہ کے آفیسرز کلب میں ایک تقریب کے دوران اپنے صحافی دوستوں کے درمیان تکرار ہوئی۔ ان ہی دنوں میں نے روزنامہ انتخاب میں سب ایڈیٹنگ کے ساتھ ساتھ رپورٹنگ شروع کی ۔ تقریب میں تاخیر کی وجہ سے صحافی برادری میں تکرار تو بہت ہوئی مگر ارشاد مستوئی بضد تھے کہ تقریب سے بائیکاٹ نہیں کرنا ہے جس کی وجہ سے تمام رپورٹر ایک طرف اور وہ اکیلا ایک طرف کھڑا تھااور وہ اپنی ضد پر قائم تھا کہ میں نے بائیکاٹ نہیں کرنا ہے۔تقریب ختم ہوئی جب روانہ ہوئے تو اس نے گاڑی دفتر بجھوانے کے بعد کہنے لگا چلو بھائی اب ہم پریس کلب تک پیدل چلتے ہیں۔ اس دس منٹ کے سفر میں ہم ایک دوسرے سے بہت قریب ہو گئے۔ دوران گفتگو وہ کہنے لگا کہ تم تو آزاد ہو خبر ڈال کو جگہ دی یا نہیں تم سے کوئی پوچھنے وال نہیں لیکن مجھے تو میرے بیورو چیف نے اس تقریب کو کور کرنے کیلئے بھیجا ہے اور یہ اسائنمنٹ پورا کئے بغیر واپس نہیں جا سکتا ۔پریس کلب پہنچنے اور کینٹین میں اس نے چائے پلانے کے بعد کہاکہ چلو اب رزق حلال کرنے کیلئے دفتروں کا رخ کرتے ہیں۔ یہ وہ ملاقات تھی جس کے بعد ہمارا تعلق ہمیشہ کیلئے جڑ گیا اور چار سال کے دوران اس نے اپنی پوری زندگی کی داستان سنادی۔کم عمری میں ڈان نیوز میں چھپنے والی تصویر اور خبر ان کے لئے بہت بڑی اعزاز تھی جس کا تذکرہ وہ ہمیشہ کیا کرتے تھے۔ ارشاد مستوئی کی فکری جدوجہد کا آغاز محض چھ برس کی عمر میں ہی ہو چکا تھا، جب اپنے بڑے بھائیوں کی صحبت میں اس نے کمیونسٹ پارٹی کی سکول کے طلباء کے لیے قائم کردہ ذیلی تنظیم ساتھی نونہال سنگت کا رکن بن گیا۔ سات برس کی عمر میں اس نے کوئٹہ میں یوم مئی کے حوالے سے میر غوث بخش بزنجو کی صدارت میں منعقدہ ایک جلسے میں فیض احمد فیض کی مشہور نظم’’ہم محنت کش جگ والوں سے جب اپنا حصہ مانگیں گے‘‘ پڑھی جس پہ بہت ساری داد وصول کی۔ اس کے بعد 9برس کی عمر میں آرٹ کونسل کراچی میں منعقدہ ایک تقریب میں ’’بچے اور ہمارے ادیب‘‘ کے عنوان سے ایک زوردارتقریر کی۔ اس کے اندازِ خطابت سے متاثر ہو کر صدرِ مجلس سندھ کے مہان شاعر شیخ ایاز نے اسٹیج پہ آ کر اس کے گال چوم لیے۔ اگلے روز کے ’’ڈان‘‘ اخبار نے اپنے اداریے میں لکھا کہ 9سال کا ایک چھوٹا سا بچہ جسے ایک ٹیبل پہ کھڑا کر کے اسٹیج پہ لایا گیا، اس نے نہایت زبردست دلائل اور اندازِ خطابت سے سارا پروگرام اپنے نام کر لیا۔ 14برس کی عمر میں ارشاد نے اپنے علاقے جیکب آباد سے ایک ماہنامہ کا اجراء کیا، جسے وہ ہاتھ سے لکھتا اور پھر فوٹو اسٹیٹ کر کے شہر بھر میں تقسیم کرتا۔1998ء میں ڈاکٹر سعید احمد مستوئی کی انگلی تھامے کوئٹہ پہنچے اور بلوچستان یونیورسٹی کے ڈی فارمیسی میں داخلہ لیا۔ کوئٹہ میں اپنے بھائی ڈاکٹر سعید مستوئی کے ساتھ قیام کے دوران وہ ادبی حلقوں میں بھی خاصا سرگرم رہا۔ یہیں سے اسے صحافت کا شوق چڑھا۔2003ء کے فائنل ائیر میں تھا جب والد کی دست شفقت سے محروم ہوئے اور تعلیم مکمل نہ کرسکے۔والد کے انتقال کے بعد جب وہ واپس کوئٹہ آئے تو صحافت میں قدم رکھا۔ ارشاد مستوئی نے صحافت کا آغاز روزنامہ ’’بلوچستان نیوز‘‘ میں پروف ریڈنگ اور سب ایڈیٹنگ سے کیا۔ ڈاکٹر سعید مستوئی کے انتقال کے بعد تو زندگی کی تلخیوں نے اس کے دامن میں ڈیرے ڈال دیئے۔ کوئٹہ میں گھر دور ہونے کی وجہ سے کبیر بلڈنگ میں واقع ایک این جی او کے دفتر کو اپنا ٹھکانہ بنا لیا جس کے لئے معاوضہ تو کچھ نہیں لیا جاتا لیکن مذکورہ این جی اوز کیلئے آرٹیکل،رپورٹس اور خبریں بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ کسمپرسی کا یہ عالم تھا کہ ایک وقت کا کھانا مشکل سے ملتا۔قیام کے دوران حیدرآباد سے شائع ہونے والے سندھی روزنامہ ’’ہلچل‘‘ کا کوئٹہ میں بیورو چیف رہا۔ سرائیکی چینل ’’روہی‘‘ کے لیے کوئٹہ سے کام کیا۔ چینلز کی جانب سے معاوضہ تو کچھ نہیں ملتاتھا لیکن سیکھنے اور آگے بڑھنے کی امید پرانھوں نے کام جاری رکھا۔ 2007 میں روزنامہ’’ مشرق‘‘ میں کام شروع کیا اور بعد ازاں ادبی صفحے کے انچارج رہے۔کچھ ہی ماہ گزرے تھے کہ روزنامہ’’ آساپ ‘‘سے وابستہ ہو گئے جہاں ماہانہ تنخواہ کے علاوہ آرٹیکل لکھنے پر 200روپے معاوضہ دیا جا تاتھا۔جس کے لئے رات بھر بیٹھ کر تین تین آرٹیکلز لکھ فرضی ناموں سے شائع کرواتا اور معاوضہ حاصل کرکے گھر بجھواتا۔2009 میں بطور رپورٹر ’’آن لائن‘‘ نیوز ایجنسی میں کام شروع کیا اورحالات کچھ ہی بہتری کی جانب جانے لگے لیکن یہاں بھی قسمت کی دیوی نے ساتھ نہ دیا۔ بڑی محنت اور تکلیفوں کے بعد اس مقام پر پہنچے تھے ، اور انھیں’’ آن لائن‘‘ نیوز ایجنسی کی جانب سے2010ء میں گوادر میں این ایف سی ایوارڈ کی کوریج کے لئے بھیجا گیا اور وہاں قیام کے دوران ایک ہوٹل میں کرنٹ لگنے کے باعث موت و زیست میں مبتلا ہوگئے تھے۔کئی روز کراچی کے آغا خان اسپتال میں زیر علاج رہے۔ ڈاکٹروں کو آخر کار دایاں ہاتھ کاٹنا پڑاکہ بجلی کے شدید کرنٹ کے باعث ناکارہ ہوچکا تھا۔ کراچی میں علاج کرانے کے بعد کوئٹہ پہنچے اور صحت میں بہتری آئی تو’’ ایکسپریس نیوز‘‘ سے وابستہ ہوگئے اورمعذوری کے باوجود گھر نہیں بیٹھے اور بائیں ہاتھ سے لکھنے کی مشق کرتے کرتے خود کو لکھنے کا عادی بنایا۔ 2010ء میں رپورٹنگ کے دوران کوئٹہ کے لیاقت بازار میں ہونے والے بم دھماکے میں بھی اس کے سر پہ شدید چوٹیں آئیں اور کئی ٹانکے لگے لیکن ارشاد مستوئی نے ہمت نہ ہاری اور 2010ء میں ہی’’ آن لائن‘‘ نیوز ایجنسی میں بطور بیورو چیف کام شروع کیا۔بیوروچیف بننے کے کچھ ہی دنوں بعد میں ایک کمرے پر مشتمل اپنے دفتر میں بیٹھا تھا اور خبروں کے نشر نہ ہونے پر اپنے بیوروچیف کے ساتھ بحث میں مصروف تھا کہ ارشاد مستوئی پہنچے اور صورتحال دیکھنے کے بعد کہنے لگا خیر ہے یار چلو اب اور کل سے تماری تمام خبریں نشر ہونگی۔ مجھے اپنے آفس لے گیا جو چند قدموں کے فاصلے پر تھااور بتایا کہ لمبی چوڑی خبر بنانے کی کیا ضرورت ہے اپنے دفتر میں مختصر خبر بنانے کے بعد میرے دفتر آجاؤ اور پھر اسے ترتیب دیگر اخبار اور نیوز ایجنسی کی خبر میں تبدیل کرو میرا کام بھی آسان ہوگا اور تمھیں رپورٹنگ میں بھی آسانی ہوگی۔ دفتر کے قریب ایک مکان کرائے پر لینے کیلئے جناح روڈ کے ملحقہ علاقوں میں ایک ہفتے تک گھومتے رہے بلآخر ایک مکان ملا تو شفٹ ہونے کے بعد انھیں تسلی ہوئی ،دسمبر 2012 میں ایک بڑے ادارے کے ساتھ منسلک ہوا توکہنے لگا کہ اب تمارا امتحان شروع ہوگیا ہے اور تم نے اب اخبار کو خیر باد کہہ کے صرف اس چینل پر فوکس رکھنا ہے۔2013ء میں اے آر وائی نیوز میں بطور اسائنمنٹ ایڈیٹر کام شروع کیا اور جب پہلی تنخواہ ملی تو شام کو حساب کتاب شروع کیا۔ میں نے کہا کہ پہلے دعوت کے پیسے الگ کرو پھر بات کرتے ہیں تو کہنے لگا کہ بھائی اے آر وائی کی دوسری تنخواہ بھی قرض داروں کو ادا کرنا ہے۔ تین ماہ تک خاموش بیٹھے رہو۔گھر جانے سے قبل روزانہ ایک آدھ گھنٹہ کسی نہ کسی ایشو پر ڈسکس کرنا ،ایک دوسرے سے الجھنا اور ایک دوسرے کو تنگ کرنا معمول کا حصہ تھا۔ شہادت سے کچھ دن قبل جب ایک خبر موضوع بحث بنی تو کہنے لگا کہ خیر ہے یار خبر تو چھپ گئی نا۔ یہ تو سب کو پتہ ہے کہ خبر میں نے بنائی ہے۔ میں نے کہا کہ جی ہاں کوئی کامریڈ ہی کسی کامریڈ کی خبر بنا سکتا ہے تو ہنس کر کہا کہ ’’ہاں یارمیں سوچ رہا ہوں کہ میں اپنا بائیو ڈیٹا بنا کے رکھ دوں زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ‘‘ تو میں نے کہا کہ دماغ تو ٹھیک ہے اچھے بھلے گپ شپ میں اپنے کامریڈ والے جملے ڈال کے پوری بحث کا ستیا ناس کرتے ہو۔یار تم پاگل ہو گئے ہو جو اس طرح کی باتیں کر رہے ہو\”میرا جواب پاتے ہی ہنس دیا اور گھروں کو چل پڑے۔ پھر وہی باتیں اور گپ شپ کا سلسلہ شروع ہوا۔دوستی کے اس سفر میں اس نے مجھے ایک استاد،بھائی اور ایک عظیم دوست کی حیثیت سے بہت کچھ دیا۔اس سینے میں ایسی بہت سی یادیں دفن ہیں جو کبھی بھی بھلا نہیں پاؤں گا۔ہمیشہ کیلئے دور جانے سے قبل فون کیا اور حسب روایت پوچھا کہ مولانا کہاں ہو جگہ تعین کرنے کے بعد کہنے لگا کہ جیسے ہی اسمبلی کا اجلاس ختم ہوجائے خبر بنانے کیلئے میرے آفس پہنچ جانا کیونکہ آج میرے دفتر سے کوئی بھی اسمبلی نہیں گیا ہے۔فون بند ہی کیا تھا کہ پانچ منٹ بعد ایک دوست نے اس افسوسناک اور المناک واقع کی اطلاع دی جس پر آج تک یقین نہیں ہوتا،قاتل اتنے دیدہ دلیر تھے کہ نماز مغرب کے وقت ارشاد مستوئی اور اس کے دونوں ساتھیوں کو فائرنگ کرکے شہید کردیا اور کسی کو کچھ بھی پتہ نہ چلا۔یہ لرزہ خیزواقعہ ایک ایسی عمارت میں رونما ہوا جہاں مغرب کے وقت وہاں لوگوں کا تانتا بند جاتا ہے۔دو ساتھوں میں رپورٹر عبدالرسول نماز کی ادائیگی کیلئے دفتر میں رکے تھے جبکہ اکاؤنٹنٹ محمد یونس گھر میں مہمانوں سے 30 منٹ کیلئے رخصت لیکردفتر آئے تھے۔شہید ارشاد مستوئی نے و الد اوردو بھائیوں کو پہلے ہی رخصت کرنے کے بعد اپنے دل میں ہزاروں خواب سجائے تھے جن میں بیشتر اپنے پایہ تکمیل کو پہنچنے والے تھے۔لیکن قسمت نے ساتھ نہ دیااورچھوٹے بھائی اشفاق احمد، اہلیہ ،دو کمسن بیٹیوں اور ایک چھ ماہ کے بیٹے کیلئے سجائے گئے خواب ادھورے چھوڑ کر انھیں ہی سوگواران کی فہرست میں ڈال دیا اور ہزاروں خواب لئے اپنے آبائی علاقے جیکب آباد میں منوں مٹی تلے ہمیشہ کے لیے سو گیا۔ خدا مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔آمین)