|

وقتِ اشاعت :   September 6 – 2014

نیویارک : ذرا سوچے کہ آپ موبائل فون یا انٹرنیٹ سے محروم ہیں مگر پاکستان سے دنیا میں کسی بھی جگہ موجود اپنے کسی پیارے سے ہر وقت رابطے میں رہتے ہیں اور وہ بھی اپنے دماغ کے ذریعے تو کیسا ہو؟ جی ہاں یہ کوئی سائنس فکشن یا افسانوی خیال نہیں بلکہ دماغی ماہرین نے اسے حقیقت کا روپ دے دیا ہے۔ ہاورڈ میڈیکل اسکول، اسٹاریاب بارسلونا اور فرانس کے ایکسیلوم روبوٹک کے ماہرین کی مترکہ تحقیق میں آٹھ ہزار کلومیٹر کے فاصلے تک دماغ سے دماغ تک پیغامات کی ترسیل یا ٹیلی پیتھی کا کامیاب تجربہ کیا گیا ہے۔ ہاورڈکی جانب جاری بیان کے مطابق ہم دو افراد کے درمیان ایسا براہ راست رابطہ چاہتے تھے جس کی مدد سے ایک شخص کی دماغی سرگرمیوں کو دوسرے شخص تک پہنچایا جاسکے اور طویل فاصلہ بھی رابطے کے اس ذریعے میں رکاوٹ نہ بن سکے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایسا ایک ذریعہ انٹرنیٹ بھی ہے مگر ہم چاہتے تھے کہ اس کی بجائے دماغ سے دماغ تک براہ راست رابطہ قائم کیا جائے۔ اس ٹیم نے اپنے ایک رضاکار کے سر پر دنیا کا پہلی ایسی ڈیوائس سے ایمیٹر کا نام دیا گیا ہے، لگائی جو اس فرد کے دماغ کے برقی کرنٹ کو ایک کوڈ بیکون چیپھر میں تبدیل کردیتی ہے۔ یہ ڈیوائس اس فرد کے خیالات لیپ ٹاپ میں منتقل کردیتی ہے اور اپ لوڈ ہونے کے بعد یہ کوڈ ان خیالات کو انٹرنیٹ کے ذریعے دوسرے فرد میں منتقل کردیتی ہے جس کے سر پر بھی یہ ڈیوائس لگائی اتی ہے۔ جیسے ہی یہ خیالات دوسرے شخص تک پہنچتے ہیں ڈیوائس کام شروع کردیتی ہے اور وہ پہلے فرد کے خیالات کو پڑھنے یا جاننے لگتا ہے۔