حکومت اور پی ٹی آئی کے ذرائع یہ اشارے دے رہے ہیں کہ ڈیڈ لاک ختم ہونے والا ہے اور دونوں مظاہرہ کرنے والی پارٹیوں نے اس بات پر رضا مندی ظاہر کی ہے کہ وہ دوبارہ ڈی چوک واپس چلے جائیں گے ۔ وہ پارلیمنٹ ہاؤس اور دوسری عمارتوں کو خالی کردیں گے۔ ابھی تک بہت سی عمارتوں پر مظاہرین کا قبضہ ہے اور دونوں پارٹیوں کے کارکن دروازوں پر ہر آنے جانے والے ‘ بشمول پولیس اہلکاروں اور سرکاری ملازمین کی تلاشی لے رہے ہیں ۔ اس کی تصاویر بعض اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں کہ دھرنے کے شرکاء لوگوں کی تلاشی لے رہے ہیں جہاں تک سیاسی ڈیڈلاک کا تعلق ہے ۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی ہے اور دوران ملاقات چین کے صدر کے دورہ پاکستان سے متعلق معاملات زیر بحث آئے۔ چین کا صدر تجارتی اور سرمایہ کاروں کا ایک بڑا وفدساتھ لا رہے ہیں اور توقع ہے کہ وہ پاکستان میں تقریباً 34ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کاکرینگے اگر حالات نے ان کو اس کی اجازت دی۔ شہباز شریف نے اس سلسلے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے ۔ آئے دن وہ چین کے دورے پر رہتے تھے اور چین سے پاکستان میں سرمایہ کاری کی درخواست کرتے تھے ۔ چند دنوں بعد چین کے صدر کا دورہ پاکستان متوقع ہے ۔ مگر اس کا انحصار عمران خان اور ڈاکٹر قادری پر ہے کہ وہ اس کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں اگر ان کا پرتشدد دھرنا جاری رہتا ہے تو چین سے مہمانوں کی آمد کی توقع نہیں رکھنی چائیے۔ اگر وہ کسی معاہدہ پر پہنچ جاتے ہیں اور دھرنا ختم ہوتا ہے اور امن و امان کی صورت حال دوبارہ بحال ہوتی ہے تو ایسی صورت چینی وفد کا دورہ پاکستان ضرور ہوگا۔ مگر قیاس یہ ہے کہ چونکہ دونوں رہنما بضد ہیں کہ نواز شریف استعفیٰ دے دیں ، اس سے کم پر وہ دھرنا ختم نہیں کریں گے۔ ظاہر ہے کہ پارلیمان کی اتنی زبردست حمایت کے بعد یہ بات بعید القیاس ہے کہ وزیراعظم پاکستان کسی سیاسی دباؤ کی وجہ سے استعفیٰ دیں وہ بھی چینی وفد کی آمد سے پہلے ۔ پارلیمنٹ ہاؤس سے واپس ڈی چوک جانا کوئی معنی نہیں رکھتا یعنی دونوں پارٹیاں اپنا احتجاج رکھیں اور چینی وفد پاکستان کا دورہ کرے اور ایسے وزیراعظم پاکستان سے مذاکرات کرے جس پر سیاسی دباؤ ہے کہ وہ استعفیٰ دیں اور گھر چلے جائیں ۔ ظاہر ہے کہ چینی وفد پاکستان کے طاقتور ترین عوامی نمائندے سے بات کرے گا۔ وہ عمران خان اور ڈاکٹر قادری سے ڈی چوک پر مذاکرات نہیں کریں گے ۔ اس کے لئے مناسب ماحول ضروری ہے ۔ شاید اسی لئے شہباز شریف نے آرمی چیف سے اس سلسلے میں ملاقات کی ہے اور اپنا نکتہ نظر ان کے سامنے رکھا ہے ۔ دیکھتے ہیں کہ آئندہ چند دنوں میں کیا فیصلے ہونے والے ہیں ۔