گزشتہ صدی کی 80ویں دہائی سیاسی کارکنوں کی جدوجہد کے تناظر میں اہم تھی ۔ جنرل ضیاء الحق نے 1979ء میں انتخابات غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دئیے تھے۔ سیاسی جماعتوں پر پابندی اور اخبارات پر سنسر عائد تھا کراچی میں سیاسی سرگرمیوں کا مرکز کراچی پریس کلب تھا۔ صدیق بلوچ اس وقت روزنامہ’’ ڈان‘‘ میں رپورٹر تھے ۔ سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں اور ٹارچرکیمپوں میں تشدد کی خبریں اخبارات کے نیوز رومز میں گردش کرتی رہتی تھیں ۔ صدیق بلوچ ہم چند نوجوان صحافیوں کو خبروں کے پس منظر ‘ بین الاقوامی تبدیلیوں کے ملکی سیاست پر اثرات اور پولیس اور بیورو کریسی کی ڈاکٹرائن کے بارے میں تفصیلی طورپرآگاہ کرتے ۔ شام کے وقت عمومی طورپر کئی سینئر صحافی پریس کلب میں موجود ہوتے مگر خبروں کے پس منظر ‘ فرشتوں کے کردار اور جنرل ضیاء الحق کے خلاف جدوجہد کرنے والے سیاسی کارکنوں کے بارے میں معلومات ہمیں صرف صدیق بلوچ سے ملتیں ۔ وہ جس طرح جنرل ضیاء الحق حکومت کی پالیسیوں کا پوسٹ مارٹم کرتے اس سے بہت سے لوگوں کو حیرت ہوتی ۔ اس حیرت کی حقیقی وجہ تھی کہ صدیق بلوچ نے بھٹو دور میں پانچ سال طویل قید کاٹی تھی ۔ اس قید میں تقریباً 8مہینے قید تنہائی کے بھی تھے مگر ان کے تجزیے میں کہیں بھٹو حکومت سے انتقال کی رمق تک محسوس نہیں ہوتی تھی ۔ اب صدیق بلوچ کی نئی کتاب Balochistan: its politics and economicsکے مطالعے سے 80کے صدیق بلوچ کی جھلک تازہ ہوگئی ۔ اس کتاب میں بلوچستان کے بارے میں اتنی معلومات ہیں کہ بلوچستان کے بارے میں نہ جاننے والا فرد بھی اس صوبے کی اقتصادی اور سیاسی صورت حال سے مکمل طورپر واقف ہوجائے ۔ اس کتاب کا Forewordہی اہم اطلاعات سے شروع ہوتا ہے ۔ فرنٹئیر کور کے سابق انسپیکٹر جنرل میجر جنرل عبیداللہ خٹک نے ایک بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا کہ دنیا کے 20ممالک بلوچستان کے معاملات میں دخل اندازی کررہے ہیں ۔ اگرچہ جنرل خٹک نے ان ممالک کی نشاندہی نہ کی مگر بلوچستان کی اہمیت کی تصدیق ہوگئی اور واضح ہوگیا کہ غیر ممالک بلوچستان میں اپنے غیر واضح مفادات کا تحفظ کررہے ہیں ۔ اس کتاب کے پہلے باب Public finance and Developmentمیں وہ لکھتے ہیں کہ بلوچستان کی پسماندگی کی ایک اہم وجہ عوام کی اکثریت کا غیر رسمی معیشت یا متوازی معیشت سے منسلک ہوناہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ ریاست کے مختلف ادارے غیر رسمی معیشت یعنی افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی آڑ میں غیر ملکی اشیاء کی اسمگلنگ کے کاروبار کی سرپرستی کرتے ہیں ۔ اسمگل شدہ گاڑیوں کے لئے اسکیم کے اجراء کے نتیجے میں مقامی صنعت کو نقصان پہنچے گا۔ وزارت خزانہ اور FBRکی بیورو کریسی اسمگلروں کی مافیا کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں ایسی اسکیم تیار ہوتی ہے ۔ ایک اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بلوچستان نقلی اشیاء کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے ۔ نقلی اشیاء میں کھانے کا تیل اور دیگر اشیاء شامل ہیں ۔ نقلی اشیاء کی فروخت سے وہ بے انتہا منافع کماتے ہیں ۔ اب اسمگلر اتنے ہوشیار ہوگئے ہیں کہ وہ افغان ٹرانزٹ کے تحت اسمگل شدہ اشیاء ملک کے کسی بھی علاقے میں پہنچا دیتے ہیں ۔ جام یوسف کے دور میں اسٹیبلشمنٹ کی طے شدہ پالیسی تھی کہ بلوچستان کے دیہی علاقوں کو ترقی نہ دی جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کتاب کے باب Massive inflow of resources soughtمیں لکھتے ہیں کہ بلوچستان وسائل سے مالا مال صوبہ ہے مگر بر سر اقتدار حکومتوں نے ان وسائل کی ترقی کیلئے مختلف وجوہات کی بنا پر فنڈز کے اجراء سے انکار کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے گوادر بندر گاہ کی ترقی کیلئے خاطر خواہ فنڈز فراہم نہیں کیے ۔ وہ اپنے اس مضمون میں بلوچستان کی پسماندگی کی وجوہات کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ برطانوی حکومت نے سندھ اور پنجاب میں انفراسٹرکچر کی ترقی پر خصوصی توجہ دی مگر ایک حکمت عملی کے تحت بلوچستان کو نظر انداز کیا ۔ وہ منفی معاشی نمو کی طرح Economic growth rate negative in Balochistanکے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے یوں تجزیہ کرتے ہیں کہ بلوچوں نے برطانوی سامراجی فوج کے خلاف 200چھوٹی بڑی لڑائیاں لڑیں اس کے ساتھ ہی بلوچ عوام کو برطانوی فوج کے پندرہ حملوں کے خلاف مزاحمت کرنی پڑی ۔ برطانیہ نے بلوچ عوام کی جرات پسندی کی سزا بلوچستان کو پسماندہ رکھ کردی ۔ حکومت بلوچستان گزشتہ کئی برسوں سے سالانہ ترقیاتی پروگرام PSDPپر مکمل طورپر عمل درآمد نہیں کر سکی کیونکہ وفاقی حکومت نے وسائل فراہم نہیں کیے ۔ بلوچستان کی حکومت کی آمدنی کا انحصار جائیداد اورموٹر وہیکل ٹیکس کے علاوہ کا پر اور گولڈ پروجیکٹ سے وصول ہونے والی رائلٹی پر ہے ۔ باقی رقم وفاقی حکومت قومی مالیاتی ایوارڈ سے فراہم کرتی ہے ۔ اسی طرح پسماندگی سے متعلقہ طویل المیعاد منصوبہ بندی Backwardness long term planing only solutionکے عنوان میں لکھتے ہیں کہ بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں طویل منصوبہ بندی کا تصور نہیں ہے ۔ بلوچستان کو ون یونٹ ختم کرکے صوبے کا درجہ دیا گیا تھا ۔ اس وقت حکومت پاکستان کے معاشی منیجرز نے سالانہ ترقیاتی منصوبہ تیار کیا تھا یہ منصوبہ چندلاکھ روپے پر مشتمل تھا اس منصوبے پر سڑکوں کی تعمیر سے لے کر پانی کی فراہمی ‘ کوئٹہ اور چند دوسرے شہروں میں اسکول ‘ اسپتال اور سرکاری ملازمین کے لیے رہائشی سہولتوں کی تعمیر تھی ۔ صدیق بلوچ نے No resource no developmentکے عنوان سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے معاشی اور مالیاتی امور میں بلوچ عوام کو مکمل طورپر نظر انداز کیا ۔
(بشکریہ ایکسپریس )
بلوچستان کی آواز ۔۔۔۔ ڈاکٹر توصیف احمد خان
وقتِ اشاعت : September 8 – 2014