نواب اکبر بگٹی قتل کیس پورے پاکستان کے لئے ایک مثالی مقدمہ ہے ۔ اس میں بڑا ملزم سابق صدر جنرل (ر) پرویزمشرف ہیں ۔ نواب بگٹی کے صاحبزادے جمیل بگٹی نے ڈیرہ بگٹی کے تھانے میں مقدمہ درج کروایا تو بھی وہ بھی اعلیٰ عدالت کے حکم کے بعد ‘ اب مقدمہ انسداد دہشت گردی کے عدالت میں چل رہا ہے ۔ آئے دن عدالت بڑے ملزم کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیتی ہے لیکن بڑا ملزم حکم ماننے کو تیار نہیں ۔ وہ کسی بھی قیمت پر بلوچستان نہیں آنا چاہتا کیونکہ بلوچستان کے عوام کے خلاف اس کے جرائم بہت زیادہ اور نا قابل معافی ہیں ۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ عدالت کو کہا گیا کہ وہ اپنی کارروائی اسلام آباد میں کرے تاکہ بڑے ملزم کو زیادہ سے زیادہ سہولیات میسر ہوں ۔ وہ کبھی بھی کوئٹہ اور سبی کے عدالتوں میں پیش نہیں ہوں گے چاہے کچھ ہی کیوں نہ ہوجائے ۔ اس طرح سے بلوچستان کی عدالتیں مجبور ہیں ۔ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ بڑے ملزم کی اطاعت کریں اور ان کو اجازت دیں کہ وہ کسی نہ کسی بہانے عدالت میں پیش نہ ہوں ۔تاہم عوامی رائے عامہ بڑے ملزم اور کے اس کے تمام حواریوں کے سخت خلاف ہے اور یہ مسلسل مطالبہ کرتا آرہا ہے کہ نواب بگٹی کے تمام قاتلوں کو سخت سے سخت سزا دی جائے ۔ نواب بگٹی کو تیس ساتھیوں کے ہمراہ 26اگست 2006کو مری اور بگٹی کے پہاڑوں کے درمیان گھیرے میں لیا گیا جہاں پر زبردست جھڑپ ہوئی اور حکومت کو فضائی امداد طلب کرنی پڑی اور فضائیہ نے راکٹ یا میزائل داغے جس سے نواب بگٹی اور اس کے تیس کے قریب ساتھی شہید ہوئے ۔ صرف دو افراد زندہ بچے اور انہوں نے اس واقعہ کی روداد بیان کی ۔ اس لئے سابق صدر پاکستان پرویزمشرف کو بڑا ملزم نامزد کیا کہ ان کے احکامات سے یہ کارروائی ہوئی جس میں 31ہلاکتیں ہوئیں ۔ واقعہ کی تفصیلات ہر خاص و عام کی زبان پر ہے مگر مقتدرہ اس قتل عام کو جائز سمجھتا ہے اور اس کے ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرنا چاہتا۔ ویسے بھی یہ کارروائی دشمن کے خلاف تھی جو ریاست کے خلاف جنگ میں ملوث تھا ۔ حقیقی صورت حال بالکل مختلف ہے ۔ پرویزمشرف بلوچ رہنماؤں سے سیاسی وجوہات کی بناء پر نفرت کرتے تھے ۔ اقتدار میں آتے ہی انہوں نے نواب خیر بخش مری کو قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں ملوث کیا ۔ یہ الزام لگایا کہ جسٹس نواز کو نواب مری نے قتل کروایا تھا۔ اس کے بعد سوئی میں ایک نوجوان فوجی افسر نے مبینہ طورپر لیڈی ڈاکٹر کی بے حرمتی کی جس پر بگٹی قبائل نے نواب بگٹی کی سربراہی میں احتجاج کیا اور ملزم کی گرفتاری اور اس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ۔ لیڈی ڈاکٹر بلوچوں کی مہمان تھی اور عوام الناس کی خدمت کر رہی تھی ۔ اس کے بعد انتظامیہ نے 17مارچ کو نواب بگٹی کے گھر پر گولہ باری کی جس سے گردو نواح میں ستر سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں ۔ ان میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے ۔ نواب بگٹی اس حملے میں بچ گئے ۔ دوسری بار ان کے گھر پر حملہ کیا گیا تو نواب صاحب گھنٹوں پہلے پہاڑوں کی طرف روانہ ہوگئے تھے اس کے بعد سینکڑوں سالوں پر محیط تمن دار بگٹی کے گھر کا کیا حشر ہوا وہ سب کو معلوم ہے ۔ تو یہ بات ثابت ہوئی کہ پرویزمشرف بلوچ لیڈروں کے خاتمے کے لئے ریاستی مشینری استعمال کرتے رہے ۔ اب وہ اقتدار میں نہیں ہیں تو ان پر غداری کا مقدمہ چل رہا ہے ۔ آئے دن روتے رہتے ہیں کہ میں بیمار ہوں مجھے ملک سے جانے کی اجازت دی جائے ۔ اس سے قبل ان کے ذہن میں یہ غلط فہمی تھی کہ وہ پاکستان میں لوگوں کے ہر دل عزیز رہنما ہیں ۔ وہ انتخابات میں حصہ لے کر پی پی اور ن لیگ کو شکست دے کر ملک کے وزیراعظم بن جائیں گے۔ اس وقت کی فوجی قیادت نے بار ہا پرویزمشرف کو اس سے باز رکھنے کی کوشش کی اور یہ یاد دلایا کہ ان کو ’’محفوظ راستہ‘‘ اس لئے دیا گیا تھا کہ وہ دوبارہ ملک نہیں آئیں گے۔ اگر آگئے تو وہ بہت سی مشکلات کا سامنا کر سکتے ہیں انہوں نے فوجی قیادت کی بات نہیں مانی بلکہ ان کو اپنا مخالف تصور کیا اور یہ بر ملا اعلان کیا کہ وہ فوجی قیادت کو ٹیسٹ کرنا چاہتے ہیں ۔ پاکستان میں پہنچنے کے بعد انکو ’’ حفاظتی حصار‘‘ میں رکھا گیا اور آج تک اسی حصا رمیں ہیں ۔ اس کے علاوہ انکا نام ای سی ایل میں شامل ہے کہ وہ ملک سے باہر نہیں جاسکتے ۔ ان کے خلاف غداری کا مقدمہ چل رہا ہے یہ سب ان کی اپنی غلطیوں کی سزا ہے اس میں دوسروں کا قصور نہیں ۔ وہ ضرورت سے زیادہ عقلمند تھے کہ صدر کے عہدے سے معزولی کے بعد بھی اپنے آپ کو پی پی اور ن لیگ سے بڑے رہنما ؤں سے بڑا رہنما تصور کرتے ہیں ۔آئے دن شور مچاتے ہیں کہ ان کو فلاں بیماری ہے لہذا ن کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دی جائے ۔ اگر ایسی بات ہے تو وہ ملک واپس کیوں آئے معاہدے کے خلاف ورزی کیوں کی ؟
بلوچستان میں عدلیہ کا وقار بحال کریں
وقتِ اشاعت : September 11 – 2014