بلوچستان قدرتی آفات کا ملک ہے ۔ گزشتہ دس بارہ سالوں میں نو بڑے قدرتی آفات نے بلوچستان میں مکمل تباہی مچائی ۔ ان میں شدید بارشیں یعنی 24گھنٹوں میں 8سو ملی لیٹر سے زیادہ بارشیں ، سیلاب ،سمندری طوفان ،دو بار زلزلے ، آواران اور ماشکیل میں تباہی وبربادی ، ان تمام آفات میں حکومت نے سوائے ابتدائی چند دنوں کے امداد کے، اس کے بعد سے آج تک متاثرین کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے ۔ وجہ معلوم نہیں۔ جب وزیر اعلیٰ بلوچستان نے آواران کے زلزلہ زدگان کیلئے بین الاقوامی امداد کا مطالبہ کیا تو مقتدرہ اور اس کے تمام نمائندوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا ۔ واضح طورپر یہ پیغام دے دیا کہ بین الاقوامی امداد بلوچ متاثرین کے لئے نہیں ہوگی اور نہ ہی کسی بین الاقوامی ادارے کو یہ اجازت ہو گی کہ وہ بلوچ متاثرین کو امدادفراہم کرے یا ان کی دوبارہ آباد کاری میں حصہ لے ۔ یہی مسئلہ نصیر آباد ڈویژن میں سیلاب زدگان کے ساتھ پیش آیا ۔ سرکاری اہلکاروں نے ممکنہ حد تک کوششیں کیں کہ سیلاب زدگان کو کم سے کم امداد ملے اور جب شور شرابہ کم ہوجائے تو ان سب سیلاب زدگان کو بے یارو مددگار چھوڑدیاجائے اور بعینہ یہی کچھ ہوا۔ اچھے خاصے خوشحال گھرانے سیلاب میں تباہ ہوگئے اب وہ نان شبینہ کے محتاج ہیں، ان کے بچوں کو علاج معالجے کی کوئی سہولت حاصل نہیں ہے ۔ سیلاب نے ان کی کھڑی فصلیں تباہ کیں بلکہ آئندہ ان پر کاشت نہیں کرسکتے ۔سیلاب کی وجہ سے پینے کا پانی کا نظام تباہ ہوگیا ہے حکومت نے ان سیلاب زدگان کی امداد پر چند کروڑ خرچ کیے ۔ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے یہ اعلان کیا تھا کہ 2012ء کے سیلاب کی وجہ سے 100ارب روپے کا نقصان ہوا ہے جبکہ حکومت نے چند ارب روپے خرچ کیے۔ مکران میں بارشوں اور سیلاب کی تباہی سے نمٹنے کے لئے وزیراعظم ظفر اللہ جمالی نے دس کروڑ روپے دئیے اور وہ مکران سے نکل پڑے ۔دوسری قسط دس کروڑ کی دس سال بعد مکران کے متاثرین کو اداکی گئی جبکہ نقصانات کا اندازہ پچاس ارب سے زیادہ تھا ۔ آواران کے زلزلہ زدگان کی خدمت میں بیس کروڑ روپے جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے پیش کیے اور چلے گئے ۔ یہاں یہ شکایات عام تھیں کہ زلزلہ زدگان کے ساتھ زیادہ اچھا سلوک نہیں کیا گیا کیونکہ یہ علاقہ ،، سیاسی قضیہ ،، کا ہے ۔ جہاں پر آئے دن تصادم کی اطلاعات آتی رہتی ہیں مگر سب سے زرخیز علاقہ نصیر آباد ڈیژن ہے جہاں پر بحالی اور دوبارہ آباد کاری کاکام مکمل نہیں کیا گیا ۔ حکومت کو اس میں دل چسپی نہیں ہے کیونکہ صوبائی حکومت کے پاس وسائل نہیں ہیں اور نہ ہی یہ دل چسپی ہے کہ وفاق سے وسائل حاصل کرے اور سیلاب زدگان کی نہ صرف امداد کرے بلکہ مقامی معیشت کو مکمل طورپر بحال کرے اور تباہ شدہ زمینوں کی پیداواری صلاحیت کو بحال کرے ۔ یہ وفاق کی ذمہ داری ہے کہ بلوچستان کے قدرتی آفت زدگان کی مستقل بحالی کا انتظام کیاجائے اور سرکاری اہلکاروں نے ان کے ساتھ جتنی زیادتی کی ہے ان کا ازالہ کیاجائے ۔
بلوچستان کے 2010اور2012کے سیلاب زدگان
وقتِ اشاعت : September 11 – 2014