|

وقتِ اشاعت :   September 13 – 2014

اسلام آباد: عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری دونوں ہی کی جانب سے اپنے کارکنوں کے خلاف چھاپہ مارکارروائی کے بعد حکومت کے ساتھ مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کردیا۔ جمعہ کے روز اس کارروائی کے دوران پورے دارالحکومت سے پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک اور ان کی اتحادی جماعتوں کے تقریباً300 کارکنوں کو اُٹھایا جا چکا ہے۔ پی ٹی آئی کے سربراہ ڈی چوک پر اپنے کنٹینر چھت پر سے بادل کی مانند گرج رہے تھے ’’میں آپ کو مشورہ دیتا ہوں، شاہ محمود قریشی، حکومت کے ساتھ جاری مذاکرات کو روک دیجیے۔‘‘ اسی طرح کے جذبات کا اظہار شاہراہِ دستور پر ڈیرہ جمائے ان کے ہم منصب کی جانب سے بھی کیا گیا۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے دھرنے کے شرکاء کو بتایا کہ ’’ہم نے اسلام آباد اور ملک بھر سے اپنے کارکنوں کی گرفتاریاں شروع ہونے کے بعد حکومت کے ساتھ مذاکرات معطل کردیے ہیں۔‘‘ پی اے ٹی کے میڈیا کوآرڈینیٹر غلام علی نے جمعہ کی علی الصبح ڈان کو بتایا تھا کہ پولیس نے پارٹی کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کو آبپارہ سے اُٹھالیا ہے۔ انہوں نے کہا ’’ان گرفتاریوں کی وجہ سے ہم نے حکومت کے ساتھ مذاکرات معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس لیے کہ وہ ڈبل گیم کھیل رہی ہے۔‘‘ پی اے ٹی کی اتحادی مجلس وحدت المسلمین نے بھی اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے رہنما اسد عباس نقوی کی گرفتاری کے بعد حکومت کے ساتھ مذاکرات معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اسد عباس نقوی پی اے ٹی کی جانب سے حکومت سے مذاکرات کرنے والی ٹیم کے ایک رکن تھے۔ اسی دوران جمعہ کے روز پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری جہانگیر خان ترین نے ایک ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئےکہا کہ موجودہ حالات میں پارٹی کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات جاری رکھے۔ ان کے مطابق پی ٹی آئی نے اپنے حتمی مطالبات کی فہرست حکومت کے حوالے کردی ہے۔ لیکن ان مناظر کے پس پردہ پی ٹی آئی کے ایک عہدے دار نے ڈان کو بتایا کہ بالفرض حکومت ایک عدالتی کمیشن کی تشکیل پر رضامند ہوجاتی ہے، جو گزشتہ عام انتخابات کے نتائج کی آزادانہ تحقیقات کرسکے، تو پی ٹی آئی وزیراعظم کے استعفے کی شرط سے دستبردار ہوسکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا ’’لیکن اب تک حکومت اس طرح کے کمیشن کے قیام کے مطالبے تک کے خلاف مزاحمت کررہی ہے۔‘‘

نرم لہجہ؟

ڈاکٹر قادری نے کہا کہ حکومت نے اسلام آباد اور روالپنڈی کی سڑکوں کو ایک بار پھر بند کردیا تھا، تاکہ پی اے ٹی کے کارکنوں کو شاہراہِ دستور تک پہنچنے سے روک سکے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ان لوگوں کی جائز شکایات سننے کے لیے تیار نہیں ہے، جو ایوانِ اقتدار کے باہر ایک مہینے سے ڈیرہ جمائے بیٹھے ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ نے کہا کہ ان کے ذاتی محافظوں کو بھی گرفتار کرلیا گیا تھا، اور انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ دارالحکومت پہنچنے سے روکنے کے لیے حکومتِ پنجاب نے پہلے ہی پی اے ٹی کے کارکنوں کے خلاف کارروائی شروع کردی تھی۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے وفاقی وزراء کو دعوت دی کہ وہ یہاں آکر دھرنے میں شامل ہوں اور شرکاء کے خدشات کو دور کرنے کے لیے خطاب کریں، انہوں نے کہا کہ وہ ان کی حفاظت کی ضمانت دیں گے۔ انہیں اپنے لہجے کو نرم رکھتے ہوئے کہا ’’میں دھرنے کو ختم کرنے کے لیے تیار ہوں، اگر وزراءمظاہرین کو قائل کردیں کے ان کے مطالبات پورے کیے جائیں گے۔‘‘ انہوں نے انکشاف کیا کہ ’’میں جانتا ہوں کہ حکمران جماعت کے اجلاس میں کس بات پر تبادلۂ خیال کیا جارہا ہے، اس لیے کہ میرے اپنے جاسوس ہیں، جو مجھے ایسی تمام پیش رفت سے آگاہ کرتے ہیں، جن کی مجھے ضرورت ہوتی ہے۔‘‘

عوامی فوج

اس تاثر کو رد کرتے ہوئے کہ انہیں فوج کی حمایت حاصل ہے، عمران خان نے واضح کیا ’’مجھے پاکستانی فوج کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے کہ میرے پاس پہلے پاکستانی عوام کی ایک فوج موجود ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کی گرفتاری کے پیچھے حکومت کا ہاتھ ہے، انہوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے گزارش کی کہ وہ اس سلسلے میں ازخود نوٹس لیں۔ عمران خان نے کہا کہ حکومت جڑواں شہروں کی سڑکوں کو بند کرکے پی ٹی آئی کے حمایتوں کو دھرنے میں شرکت سے روکنے کی کوشش کررہی ہے۔