انسانی زندگی میں حیات کے بعد موت دوسری بڑی سچائی ہے جسے ذہین و فطین انسانوں نے مختلف نظر سے دیکھا۔ مثال کے طور پہ شہرہ آفاق اطالوی مصور، لیونا روڈو ڈا وانچی نے کہا:
’’میرا خیال تھا کہ میں جینا سیکھ رہا ہوں، مگر معلوم ہوا کہ میں تو مرنا سیکھتا رہا۔‘‘
جبکہ مشہور فلپائنی سیاست داں، کورازون اکینو کا قول ہے: ’’میں بے معنی زندگی گزارنے کے بجائے بامعنی موت مرنا پسند کروں گی۔‘‘
اپنی ذات پہ ہنسنے کی جرات رکھنے والے لوگ موت کو بھی کئی لطیفوں کا موضوع بنا لیتے ہیں۔ مثلاً ایک مزاحیہ شاعر نے اپنے دوست کی وفات پر کچھ یوں شعری ماتم کیا:
دو ہزار سے زیادہ فیس بک فرینڈ تھے ان کے
نہ جانے کہاں مرگئے، ایک بھی نہیں آیا جنازے میں
دیکھا گیا ہے کہ انسان کو بچپن اور نوجوانی میں عموماً موت کا خیال نہیں آتا۔ مگروہ جونہی بڑھاپے میں قدم رکھے، موت اس کے سر پر منڈلانے لگتی ہے۔ تبھی اس پر افشا ہوتا ہے:
اگر تم سے کوئی پوچھے، بتائو زندگی کیا ہے
ہتھیلی پر ذرا سی خاک رکھنا اور اڑا دینا
تاہم اس قسم کے اشعار سنا کر آپ کو موت سے خوفزدہ کرنا ہرگز مقصود نہیں بلکہ ایک خوش خبری سنانی ہے۔ وہ یہ کہ امریکی ڈاکٹر کوشش کررہے ہیں، تیزی سے موت کی طرف بڑھتے شدید زخمیوں اور جان لیوا تکلیف میں مبتلا مریضوں کو واپس زندگی کی طرف کھینچ لائیں اور اس غرض سے انہوں نے ایک بڑا طلسماتی و جادوئی سا طریقہ دریافت کر لیا۔
انسان کو جب گولی لگے، وہ چاقو کے وار کی زد میں آئے یا ٹریفک حادثے کا نشانہ بن جائے تو زخموں سے شراشر خون بہنے لگتا ہے۔ بطور ابتدائی طبی امداد خون روکنے کی سعی ہوتی ہے، مگر وہ تو بعداز آپریشن ہی صحیح طرح رک سکتا ہے۔عام طور پر جب شدید زخمی ہسپتال پہنچے، تو اس کا اچھا خاصا خون نکل چکا ہوتا ہے۔ تب موت اس سے محض دو چار قدم دور ہی کھڑی ہوتی ہے۔ وجہ یہ کہ ہمارا خون ہی دماغ تک آکسیجن پہنچاتا ہے۔ جب انسانی جسم کے صدراعظم کو صرف 5 منٹ تک آکسیجن نہ ملے، تو دماغی خلیے مرنے لگتے ہیں۔ گویا موت بڑی تیزی سے انسان کو آدبوچتی ہے۔ چنانچہ زیادہ خون سے محروم ہوجانے والے زخمی دوران آپریشن ہی چل بستے ہیں۔ ایک رپورٹ کی رو سے ہر سال لاکھوں انسان شدید زخمی ہو کے زیادہ خون بہنے یا بروقت علاج نہ ہونے سے مرجاتے ہیں۔
اب دو امریکی ماہرین طب، ڈاکٹر سیموئیل تشرمان (Samuel Tisherman) اور ڈاکٹر پیٹر رہی(Peter Rhee) نے ایسا طبی طریقہ ایجاد کیا ہے جس کی مدد سے ڈاکٹروں کو شدید زخمی یا زبردست ہارٹ اٹیک کا نشانہ بنے مریض کی جان بچانے کے لیے انتہائی قیمتی مزید ایک تا ڈیرھ گھنٹہ مل سکے گا۔ڈاکٹر پیٹر اریزونا یونیورسٹی جبکہ ڈاکٹر تشرمان یونیورسٹی آف میری لینڈ سے منسلک ہیں۔
اس طبی طریق کار میں پہلے شدید زخمی یا کسی جسمانی تکلیف میں گرفتار انسان کا سارا خون نکالا جاتا ہے۔ اس کی جگہ انسان کے جسم میں نہایت سرد نمکین پانی (Saline Water) ڈالا جاتا ہے۔ اِس پانی کی خاصیت یہ ہے کہ اُس میں آکسیجن موجود ہوتی ہے۔ چناں چہ وہ دماغ، دل، جگر اور گردوں سمیت تمام جسمانی اعضا کے خلیوں تک آکسیجن پہنچا کر انھیں زندہ رکھتا ہے۔
اس حیرت انگیز طبی ایجاد کا بنیادی فائدہ یہی ہے کہ یوں ڈاکٹروں کو زخمی یا شدید کرب میں مبتلا مریض کی جان بچانے کے لیے مزید ڈیڑھ گھنٹہ مل سکے گا ۔ لہٰذا اس عرصے میں وہ طویل آپریشن یا علاج کرکے موت کے چنگل میں پھنسے زخمی کو آزاد کرالیں گے۔
جب آپریشن مکمل ہوجائے، تو پھر زخمی کے بدن سے نمکین پانی نکال کر دوبارہ اسی کا خون داخل کیا جاتا ہے۔ تب خون نہ ہونے کے باعث انسانی جسم سفید پڑ چکا ہوتا ہے ۔لیکن جوں ہی یہ سرخ سیال مادے بدن میں پہنچے، وہ پھر گلابی ہونے لگتا ہے۔ جیسے ہی انسانی جسم کا درجہ حرارت مخصوص سطح پر پہنچے، خوابیدہ قلب بھی ہڑبڑا کر جاگتا اور دھڑکنے لگتا ہے۔ رفتہ رفتہ دیگر جسمانی اعضا بھی عارضی نیند سے بیدار ہوتے اور اپنے فرائض انجام دینے لگتے ہیں۔
طبی اصطلاح میں اس ایجاد کو ’’ای پی آر‘‘ (Emergency Preservation and Resuscitation) کا نام دیا گیا ہے۔ اسے سب سے پہلے پالتو کتوں، بلیوں اور دیگر چرند پرند پر آزمایا گیا جو شدید زخمی ہوتے اور جان بلب! جب جانور ایک ڈیڑھ گھنٹہ عارضی طور پر مردہ رہنے کے بعد زندہ ہوتے، تو خاصی کمزوری دکھاتے لیکن ان کے سبھی جسمانی اعضا کام کررہے ہوتے۔
جب جانور غذا کھاتے تو آہستہ آہستہ ان میں طاقت عود کر آتی اور وہ اپنی ٹانگیں ہلانے لگتے۔ اکثر چند دن اور بعض چند ہفتوں میں تندرست و توانا ہوجاتے۔ ’’ای پی آر‘‘ کے انوکھے مرحلے سے گزرنے کے بعد ان کی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں میں کوئی کمی نہ آتی۔اب سال رواں کے اوائل سے امریکا کے یونیورسٹی آف پٹس برگ میڈیکل سینٹر میں یہ طبی تکنیک انسانوں پر آزمائی جارہی ہے۔ اس تجربے کے نتائج اگلے سال سامنے آئیں گے۔ تاہم ڈاکٹروں کو یقین ہے کہ اس طبی طریق کار کی ایجاد سے شدید زخمیوں اور ہارٹ اٹیک کا نشانہ بنے مردوزن کی جانیں بچانا ممکن ہو جائے گا۔
ڈاکٹر سیموئیل تشرمان ایک زمانے میں ڈاکٹر پیٹر سفار(Peter Safar) کے شاگرد رہے۔ انہی ڈاکٹر پیٹر نے نصف صدی قبل ’’سی پی آر‘‘(Cardiopulmonary resuscitation) طریقہ ایجاد کیا۔اس طبی تکنیک میں مریض کے سینے پہ مخصوص طریقے سے دبائو ڈالا جاتا ہے تاکہ دھڑکن قلب دوبارہ رواں دواں ہوسکے۔
سی پی آر کی کامیابی ہی سے انسان کو معلوم ہوا کہ موت جیسی خوفناک چیز کو بھی ٹالنا ممکن ہے۔ وجہ یہ کہ دماغی خلیوں کو چھوڑ کر دیگر جسمانی اعضا کے خلیے مرنے کے بعد بھی کچھ گھنٹے زندہ رہتے ہیں۔
کبھی کبھی قدرت الٰہی بھی اپنے خاص بندوں پر مہربان ہوتی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہارٹ اٹیک کے بعد دل کی دھڑکن بند ہوگئی۔ تب اردگرد موجود لوگ اور پھر ڈاکٹر بھی قلب چلانے کی سرتوڑ کوشش کرتے ہیں، مگر مثبت نتیجہ نہیں نکلتا۔
لیکن چند منٹ بعد دفعتاً معجزہ جنم لیتا اور دل دوبارہ دھک دھک کرنے لگتا ہے۔ پچھلے چند عشروں میں ڈاکٹر کئی بار اس معجزے کا مشاہدہ کرچکے۔ چناں چہ اس انوکھے عمل کو ’’لعرز اعجوبہ‘‘ (Lazarus Phenomenon) کا نام دے دیا گیا۔ یاد رہے، لعزر یروشلم کے قریب گائوں کا باشندہ تھا۔ جب وہ چل بسا تو حضرت عیسیٰؑ نے معجزہ دکھاتے ہوئے اسے پھر زندہ کردیا تھا۔
لیکن دھڑکن قلب کو دوبارہ رواں دواں کرنا ڈاکٹروں کی واحد ذمے داری نہیں، انہیں یہ بھی خیال رکھنا پڑتا ہے کہ مریض یا زخمی کا دماغ مردہ نہ ہو جائے۔ دماغ کو محفوظ کرنے کی خاطر ڈاکٹر پیٹر سفار نے یہ تجویز دی کہ مریض کو ’’طبی سرما زدگی‘‘ (Therapeutic hypothermia) سے گزارا جائے۔ مثلاً اس کے اردگرد برف کی سلیں رکھ دی جائیں۔
دراصل انتہائی سرد ماحول میں ہمارے جسمانی خلیے ’’سلو موشن‘‘ میں کام کرنے لگتے ہیں۔ ان کا نظام استحالہ (میٹابولزم) سست پڑجاتا ہے۔ ایسی غیرمعمولی کیفیت میں آکسیجن کی کمی سے جنم لینے والا نقصان انہیں زیادہ متاثر نہیں کرپاتا۔
تاہم نظریہ طبی سرمازدگی کئی برس بعد عملی جامہ پہن رہا ہے کہ جان بچانے کے عمل میں مدد دینے والی مختلف جدید مشینیں ایجاد ہوچکیں۔ مثلاً ایک مشین انسان کو آکسیجن فراہم کرتی تو دوسری مصنوعی قلب کی سہولت دینے سے خون کی روانی برقرار رکھتی ہے۔ انہی مشینوں کی مدد سے نظریہ طبی سرمازدگی پر عمل درآمد ممکن ہوسکا۔
ویسے بھی انسان جسمانی و ذہنی طور پر بڑا سخت جان واقع ہوا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال جون 2011ء میں سامنے آئی۔ اس دن امریکی شہر، ہیوسٹن میں واقع ایک ہسپتال، سینٹر فار ایڈوانسڈ ہارٹ فیلئر(Center for Advanced Heart Failure) میں ایسا مریض لایا گیا جسے دل کا دورہ پڑا تھا۔
ہسپتال پہنچتے ہی چالیس سالہ مریض کی حرکت قلب بند ہوگئی۔ چناں چہ نرسیں دل چالو کرنے کی خاطر اس پہ سی پی آر عمل کرنے لگیں۔ مریض تھوڑی بعد ہوش میں آیا، لیکن کچھ دیر میں پھر بے ہوش ہوگیا۔ اسے پھر مشین سے آکسیجن دی جانے لگی۔
مریض کا دل پورے ’’ساڑھے تین گھنٹے‘‘ تک رکا رہا۔ اس دوران وہ مشینوں کے سہارے ہی زندہ رہا۔ اُدھر نرسوں، ڈاکٹروں حتیٰ کہ ہسپتال کے گارڈوں اور صفائی کرنے والوں نے سی پی آر جاری رکھا۔ اس طویل مشقت کے بعد آخر کار جوان کا دل دوبارہ دھڑکنے لگا۔ قابل ذکر بات یہ کہ بعد ازاں مریض صرف دو ہفتے ہسپتال میں قیام پذیر رہا۔ پھر تندرستی پاکر رخصت ہوگیا۔
یہ پہلا اور آخری طبی واقعہ ہے کہ ایک انسان ساڑھے تین گھنٹے تک دل کی دھڑکن نہ ہونے کے باوجود زندہ رہا۔ یہی نہیں، اسے ذہنی و جسمانی طور پر کوئی نقصان نہیں پہنچا اور اب وہ نارمل زندگی گزار رہا ہے۔
لیکن ’’ای پی آر‘‘ طریق کار چند برس تجربات کرنے کے بعد انسانوں پر نہیں آزمایا گیا بلکہ ڈاکٹر تشارمان تقریباً بیس برس سے اسے جانوروں پر آزما رہے ہیں۔ دو عشرے تجربے کرنے سے ہی ماہرین طب کو یقین ہوا کہ یہ طریق کار محفوظ اور انسان دوست ہے۔
یہ تجربات چوہوں سے لے کر گھوڑوں تک پہ کیے گئے۔ اس دوران دیکھا گیا کہ جس جانور کا بدن جتنی تیزی سے ٹھنڈا ہوا، وہ بعدازاں دوسروں کی بہ نسبت جلدی صحت یاب ہوجاتا ہے۔ تندرستی کے بعد انہیں مختلف امتحانات سے گزارا جاتا تاکہ ان کی ذہنی صحت جانچی جاسکے۔ایک تجربے میں دو کتوں کو مخصوص رنگ والا ڈبا کھولنا سکھایا گیا جس میں سے گوشت نکلتا۔ بعدازاں ای پی آر طریق کار سے گزرنے کے بعد وہ تندرست ہوئے، تو پہلے کی طرح بڑی آسانی سے ڈبے کھولنے لگے۔ اسی طرح جو کتے پہلے ڈبے نہیں کھولتے تھے، تندرستی کے بعد انہیں یہ طریقہ سکھایا گیا، تو وہ جلد اسے سیکھ گئے۔
امریکا میں خواص و عام سی پی آر طریق کار کو حیرت و خوف کے ملے جلے جذبات سے دیکھ رہے ہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ یہ بنی نوع انسان کے لیے سائنس کا نیا بہترین تحفہ ہے کیونکہ اس کے ذریعے اب مرتے ہوئے انسان کو زندگی بخشی جاسکتی ہے۔ تاہم بعض ماہرین کو شک ہے کہ اگر جسم میں دوبارہ خون ڈالنے کے بعد مریض ہوش میں نہ آسکا تو پھر کیا ہوگا؟ کیا اسے مشینوں کی مدد سے زندہ رکھا جائے گا؟بہرحال ای پی آر سامنے آنے سے ان ماہرین کو تقویت پہنچی ہے جو انسان کو عمر ِخضر عطا کرنا چاہتے ہیں۔ یا ان کی سعی ہے کہ انسان کئی صدیوں تک زندہ رہے۔
مثال کے طور پر بعض امریکی ماہرین چاہتے ہیں کہ بعداز موت ان کی لاش سرد خانے میں رکھ دی جائے۔ انہیں یقین ہے کہ 2050ء تک ایسے کمپیوٹر وجود میں آجائیں گے جن میں ایک انسان کا دماغ بھرا جاسکے۔ یوں اس انسان کو حیات جادواں مل سکے گی۔ چناں چہ تب سرد خانے سے لاش نکال کر ان کا دماغ بھی کمپیوٹر میں فٹ کردیا جائے گا۔ (منفی درجہ حرارت میں رہنے کی وجہ سے بقول ان کے دماغی خلیے زندہ رہیں گے)۔
انسان کو دائمی زندگی ملتی ہے یا نہیں، یہ تو مستقبل ہی بتائے گا۔ فی الوقت آپ درج ذیل دو منفرد اقوال سے لطف اندوز ہوں:
٭… میں سمجھتی ہوں کہ موت سے ایک خوشگوار امر بھی وابستہ ہے ،یہ کہ جب انسان کو علم ہو کہ اسے کل مرجانا ہے، تو وہ آج زندگی کی قدر کرنے اور اس سے لطف اٹھانے لگتا ہے۔ (امریکی اداکارہ انجلینا جولی)۔
٭… زندگی بہت سخت ہے۔ اسے گزار کر ہم مرجاتے ہیں۔ پھر ہمارے چہرے پر مٹی ڈالی جاتی ہے۔ بعد کو ہم کیڑوں کا رزق بن جاتے ہیں۔ مگر اس امر پر تشکر کیجیے کہ یہ سب کچھ بڑی ترتیب اور نظم و ضبط سے انجام پاتا ہے۔ (انگریز ادیب، ڈیوڈ جیرولڈ)
اف اتنی سردی
عام حالات میں انسان کا نارمل درجہ حرارت 35 تا 37 درجے سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ ہمارے جسم میں عضلات، دل اور جگر حرارت پیدا کرتے ہیں۔ اسی حرارت کی مدد سے اہم جسمانی اعضا اپنا کام بخوبی انجام دیتے ہیں۔
اگر انسان میں درجہ حرارت بڑھنے لگے تو وہ بخار میں مبتلا ہوتا ہے۔ لیکن گر جائے، تو وہ سرما زدگی (Hypothermia) کا نشانہ بنے لگتا ہے۔ اس کیفیت کے چار مراحل ہیں: معمولی، معقول، شدید اور نہایت شدید۔ نہایت شدید کیفیت میں جسم انسانی کا درجہ حرارت 20 درجے سینٹی گریڈ سے نیچے ہوجاتا ہے۔
درج بالا کیفیت میں تمام انسانی اعضا اپنا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ اس حالت میں انسان کو تھوڑی سی بھی آکسیجن ملتی رہے، تو وہ زندہ رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے، ہوائی جہاز کے پہیوں میں بیٹھے بعض احمق اترنے پر بے ہوش مگر زندہ پائے جاتے ہیں۔
مُردہ کو زندہ کرنے والے مسیحا
وقتِ اشاعت : September 14 – 2014