عراق اور شام سے الدولتہ الاسلامیہ فی العراق و الشام ’’داعش‘‘نامی عسکریت پسند تنظیم اسلامی خلافت کا علم لے کر اٹھی ہے ، اس تنظیم نے اپنی خلافت کو خراسان یعنی افغانستان ، پاکستان ، ایران اور وسطی ایشیاء تک وسعت دینے کا ارادہ ظاہرکیا ہے۔ داعش شام اور عراق کی شیعہ حکومتوں کے خلاف صف آراء ہے اسی لئے اس بڑے سخت گیر جنگجو تنظیم کی حمایت میں ایران سے متصل بلوچستان کے اضلاع میں بھی آواز اٹھی ہے۔ گویا تجزیہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر داعش عراق کے دار الحکومت بغدار پر قابض ہوتی ہے تو ایران کے سنی اکثریتی صوبہ سیستان بلوچستان اور پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان کے اضلاع چاغی، واشک، پنجگور اسی طرح کیچ میں جنگجو افراد مل سکتے ہیں ۔ جو سمجھتے ہیں کہ ایران نے ان کے ساتھ لسانی ، قومی اور مذہبی لحاظ سے عدم مساوات کا رویہ اپنا رکھا ہے ۔اس مخاصمت کی تاریخ پرانی ہے۔ بلوچ قوم پرست یہ سمجھتے ہیں کہ ایران کے قاچار کے دور میں سیستان بلوچستان کا علاقہ ہتھیالیا گیا تھا ۔1871 میں ایک ثالثی لکیر گولڈ اسمتھ لائن کھینچ کربلوچستان کا مغربی حصہ خاندان قاچار کو دے دیا گیا۔ کچھ مدت تک یہ سلطنت قائم رہی بعد ازاں برطانیہ نے 1916ء میں بلوچ سیاسی رہنماؤں کی مغربی بلوچستان پر حکمرانی تسلیم کرلی تھی لیکن 1928ء میں ایرانی فوج نے رضا خان کی قیادت میں پھر حملہ کرکے مغربی بلوچستان کا واک و اختیار چھین لیااور آج بھی ایران بلوچ سرزمین پر قابض ہے۔ ایرانی ریاست کے خلاف پاکستان و ایران کے سرحدی علاقوں میں گویا نوے کی دہائی میں مذہب و مسلک کی بناء پر عسکری عملیات کا آغاز ہوا۔ چنانچہ غالباً 2003ء میں عبدالمالک ریکی (جو کراچی کے ایک دیوبند مکتبہ فکر کے دینی مدرسہ کا فارغ التحصیل نوجوان تھا )نے جنداللہ کے نام سے مسلح کارروائیاں شروع کردیں۔ واضح رہے کہ ایران کے اس بلوچ و سنی اکثریتی صوبے میں قومی و لسانی بنیادوں پر بھی حقوق کی جدوجہد ہوتی رہی ہے۔ جنداللہ کو اس تحریک کا تسلسل بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ رفتہ رفتہ جنداللہ ایک مضبوط شدت پسند عسکری تنظیم کے طور پر ابھری اور کئی مردم کش حملے ایران کے اندر اور سرحد پر کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ ریاست ایران نے عبدالمالک کو ایک سنگین خطرے کے طور پر دیکھنا شروع کردیا۔ ایرانی فورسز نے پاکستان کی حدود کے اندر جنداللہ کے مبینہ ٹھکانوں پر بارہا گولے برسائے۔ ایران کی انٹیلی جنس کوئٹہ کے اندر تک سرگرم ہوگئی بلکہ چند ایک کارروائیاں بھی کیں ۔ چونکہ پاکستان کے ساتھ 991کلو میٹر طویل سرحد کو محفوظ بنانا پاکستان کے لئے قطعی ناممکن ہے اسی طرح یہ ایران کے لئے بھی کار آسان نہیں ہے حالانکہ ایران خاطر خواہ اقدامات اٹھا چکا ہے، کنکریٹ کی دیوار بھی کھڑی کردی ہے۔ کیچ کے ساتھ گوادر میں ایران اور پاکستان کے درمیان سمندر واقع ہے ۔آبی نگرانی بھی ایران نے سخت کر رکھی ہے چنانچہ ایرانی انٹیلی جنس عبدالمالک ریکی کو تحویل میں لینے میں کامیاب ہوگئی۔ عبدالمالک ریکی فروری2010ء میں دبئی سے کرغستان جانے والی پرواز میں سوار تھا کہ کرغستان ایئر لائن کی پرواز کو ایرانی ایئر فورس نے اس وقت اتارا جب جہاز ایران کی حدود میں پرواز کر رہا تھا ۔ اس طرح عبدالمالک کو گرفتار کرکے مختصر عدالتی ٹرائل کے بعد تختہ دار پر لٹکایا گیا۔ ما بعد جنداللہ تنظیم جیش العدل میں تبدیل ہوگئی ۔ سربراہ عبدالمالک ریکی کے بھائی عبدالرؤف ریکی بنے ۔ اندریں اختلافات کی بناء پر اس کے بطن سے جیش النصر برآمد ہوئی۔ آخر الذکر کی کمانڈ عبدالرؤف ریکی کے ہاتھ آئی اور جیش العدل کے امیر ملا عمر اور نائب امیر صلاح الدین فاروقی مقرر ہوئے۔ جیش العدل اور جیش النصر کے درمیان مخاصمت پیدا ہوئی ، جھڑپیں ہوئیں۔ ایرانی ٹی وی پریس ٹی وی کے مطابق اگست کے آخری ہفتے میں پاک ایران سرحد پر دو مسلح جتھوں کے درمیان جھڑپ میں عبدالمالک ریکی کا بھائی عبدالرؤف ریکی اور بھتیجا جاں بحق ہوگئے۔ تاہم جیش العدل نے اپنے فیس بک اکاؤٹ پر ایرانی سرکاری ٹی وی کے دعوے کو غلط قرار دیا ۔ یہ تسلیم کیا کہ جیش العدل کے اختلافات تھے لیکن یہ اختلاف اتنی شدت کے نہیں تھے کہ بات تصادم تک چلی جائے۔ جیش العدل کی بلوچ علیحدگی پسندوں سے بھی جھڑپ ہوچکی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ عبدالرؤف ریکی کوئٹہ میں مارا گیا ہے۔ اگر چہ اس بابت کسی جانب سے تصدیق نہ ہوسکی نہ ہی یہ معلوم ہوسکا کہ ان کی تدفین کہاں ہوئی۔ البتہ ان کے ساتھی کی تدفین پاک ایران سرحد سے ملحقہ بلوچستان کے ضلع واشک کی تحصیل ماشکیل کے علاقے سوتگان میں ہوئی۔ اگر یہ بات درست ہے تو ان کی ہلاکت میں ایرانی خفیہ ادارے کے ہاتھ کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ایران کے خلاف بر سر پیکار ان دو تنظیموں کی قربت لشکر جھنگوی سے بھی بتائی جاتی ہے۔ ممکن ہے یہ گمان مسلکی جوڑ کی بناء پر کیا جاتا ہو ،لشکر جھنگوی بھی ایران اور شیعہ مسلک کے خلاف قوت آزمائی کررہی ہے۔ چنانچہ اگر داعش کے طوفان کی گرد عراق سے نکلتی ہے تو جیش العدل ، جیش النصر اور لشکر جھنگوی ان کی صفوں میں موجود ہوں گی ۔ بلوچستان کے ایران سے ملحقہ ضلع کیچ میں دیواروں پر لشکر خراسان نامی کسی گمنام تنظیم نے داعش کے حق میں وال چاکنگ بھی کردی ہے۔ داعش نے اپنا پیغام کتابچے کی صورت میں پشتو اور دری زبان میں صوبہ پشتونخوا کے دار الحکومت پشاور کے مہاجر کیمپوں میں تقسیم کیا ہے ۔ حزب اسلامی کے ایک کمانڈر میر واعظ نے قرار دیا ہے کہ حزب اسلامی افغانستان کا داعش سے رابطہ ہے ۔حزب اسلامی ایک معروف افغان سیاسی و جہادی تنظیم ہے جس کا روسی قبضہ کے وقت جہاد کے ساتھ ساتھ افغانستان میں بیرونی افواج کی واپسی، امن ، انتخابات اور اس کے نتیجے میں قومی حکومت کا قیام مطالبہ رہا ہے۔ یہی مطالبہ آج بھی حزب اسلامی کا ہے یقیناًحزب اسلامی امریکی اور نیٹو قبضے کے خلاف سیاسی و عسکری مزاحمت میں پیش پیش ہے اور طالبان بھی افغانستان کے اندر اسلامی امارت کے قیام کے لئے عملاً میدان میں ہے۔ چنانچہ ان دو جماعتوں کا بظاہر داعش سے کوئی میل ملاپ یا جوڑ لگتا نہیں ہے۔ البتہ تحریک طالبان پاکستان جس کا اب پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بظاہر کوئی ٹھکانہ نہیں رہا ہے،تنظیم بھی تقسیم ہو چکی ہے ، ممکن ہے کہ یہ منتشر قوت داعش کے پروگرام کے مطابق ساتھ دے۔ چونکہ داعش براہ راست شام اور عراق کی شیعہ حکومتوں کے ساتھ حالت جنگ میں ہے ۔ دونوں حکومتوں کی پشت پر ایران کی عسکری اور سفارتی قوت ہے ۔داعش شام کا علاقہ رقہ قبضہ کر چکا ہے ۔ عراق کے اندر طل افعار ،موصل ، تکریت اور فلوجہ ان کے تصرف میں آچکے ہیں۔ تیل کے کئی کنوؤں پر ان کا کنٹرول ہے پانی کے ڈیم بھی، اسی طرح قومی شاہراہیں استعمال میں لاچکی ہے یعنی عراق و شام کے چالیس ہزار مربع کلو میٹر کے علاقے پر قابض ہے۔ اب نگاہ بغداد پر ہے۔ یہاں امریکہ اور ایران کا گٹھ جوڑ ہے۔ داعش پچاس سے نوے ہزار کی سپاہ کے ساتھ جنگ کررہی ہے ۔ پیشقدمی دراصل ایران کے لئے مفاد اور بقاء کا مسئلہ ہے روایتی طور پر ایران امریکہ کا رول عراق میں نہیں چاہتا لیکن عملاً وہ امریکہ کا اتحادی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ایران نے افغانستان میں طالبان کے خلاف امریکہ اور نیٹو کا ساتھ دیا اور شمال کی قوتوں کو اسلحہ اور مالی تعاون فراہم کیا ۔ اب عراق میں یہ دو ممالک مخالف سنی جنگجوؤں کو روکنے کی ایک پالیسی پر کھڑے ہیں۔ آیت اللہ خامنہ ای نے ایرانی کمانڈروں کو داعش کے خلاف امریکہ اور کرد فوجیوں کے ساتھ تعاون کی اجازت دے رکھی ہے نیز آیت اللہ خامنہ ای نے بغدار کے تحفظ کی خاطر ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس کے کمانڈر عشام سلیمان کو بغداد کا دفاع مضبوط کرنے کی ہدایت دے رکھی ہے ۔ جنرل عشام سلیمان عراقی شیعہ گروپس کو تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ چنانچہ دولت اسلامیہ پاکستان کی سرحد سے ایران پر کاری وار کے لئے ممکنہ طور پر جیش العدل، جیش النصر اور لشکر جھنگوی جیسی تنظیموں کو منظم کرسکتی ہے۔ بغدار پر قبضے کے بعد داعش کا ایران کے ساتھ براہ راست محاربہ ہوسکتا ہے۔ اگر پاک ایران سرحدوں پر موجود ان مسلح گروہوں کو مالی طور پر مستحکم کیا جاتا ہے تو انہیں افرادی قوت حاصل کرنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی ۔ پاکستان ایران کو کئی مطلوب افراد حوالے کرچکا ہے ۔ ایران کے اندر ان شدت پسندوں کی بڑی تعداد کو کڑی سزائیں سنائی اور دی جاچکی ہیں جن میں سزائے موت شامل ہے۔ ان سزاؤں کے خلاف جوش انتقام بھی موجود ہے جو داعش اپنے حق میں استعمال کرسکتی ہے۔