|

وقتِ اشاعت :   September 17 – 2014

یہ طرز عمل عام ہے کہ مختلف مکتبہ ہائے فکر احتجاج کے دوران غیر شائستگی کا مظاہرہ کرتے ہیں اوران کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ عوام الناس کو زیادہ سے زیادہ تکالیف پہنچائیں ۔ اس میں طلباء ‘ مزدور ‘ کلر ک برادری اور دوسرے لوگوں کی ا نجمنیں شامل ہیں۔ ان پر سبقت سیاسی لوگ لے جاتے ہیں ۔ مگر حالیہ دنوں میں کوئٹہ میں دیکھا گیا ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے مظاہرے شائستگی کا دامن نہیں چھوڑتے اور سیاسی کارکن پریس کلب کے ایک کونے میں کھڑے ہو کر اپنی شائستہ احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں اس دوران کسی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچاتے اور نہ ہی سڑکیں ٹریفک کی روانی کو متاثر کرنے کیلئے بند کردیتے ہیں اور نہ ہی لوگوں کو گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے ۔ کوئٹہ میں کلرک‘ مزدور اور دوسرے سفید کالر والے ٹریڈ یونین اکثر صوبائی دارلحکومت کی بڑی بڑی سڑکیں ٹریفک کیلئے بند کردیتے ہیں تاکہ ان کے مظاہرے اور احتجاج کی اہمیت اجاگر ہو کہ انہوں نے عوام الناس کو کتنی تکلیف پہنچائی ۔ آئے دن ہم ان کالموں میں اس کے خلاف لکھتے رہتے ہیں کہ احتجاج آپ کا حق ضرور ہے مگر آپ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ لاکھوں انسانوں کو تکلیف پہنچائیں ۔ اسکول کے چھوٹے چھوٹے بچے گھنٹوں ٹریفک کھلنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں ۔ کوئٹہ کی انتظامیہ کو ہمارامشورہ ہے کہ ان کی احتجاج کیلئے ایک مخصوص جگہ بنائی جائے جہاں پر یہ لوگ اپنا احتجاج ریکارڈ کراسکیں ۔ان کو سڑکیں بند کرنے کا حق نہیں دینا چائیے ۔ دوسری جانب ملک کے اندر آج کل تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک اپنا احتجاج گزشتہ ایک ماہ سے جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ احتجاج کرنے والوں کو ہر طرح کی آزادی حاصل ہے کہ وہ ایک دن میں سینکڑوں پولیس والوں پر حملہ کرکے ان کو زخمی کریں ۔ سرکاری املاک کو نقصان پہنچائیں ۔ پی ٹی وی پر حملہ کریں اور 8قیمتی کیمرے چوری کرکے لے جائیں ۔ پی ٹی وی کے ملازمین خصوصاً خاتون اینکر پرسن کے ساتھی بد تمیزی کی گئی ۔ ان دونوں جماعتوں کے رہنما اشتعال انگیز تقاریر کررہے ہیں ۔ آئے دن وہ دوسرے سیاسی رہنماؤں کے خلاف غیر شائستہ زبان استعمال کررہے ہیں ۔ حکومت نے دفاعی پوزیشن اختیار کی ہوئی ہے ۔ حکومت کا نرم گوشہ سمجھ سے بالا تر ہے ۔حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کررہی ہے بلکہ حکومت نے ان کو محفوظ راستہ فراہم کیا کہ وہ لاہور سے اسلام آباد پہنچیں بعد میں آبپارہ سے اپنا دھرنا سیکرٹریٹ اور ریڈ زون منتقل کردیا ۔حکومت نے کوئی کارروائی نہی کی بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اگر یہی کام بلوچ اور سندھی کرتے بلکہ اسلام آباد میں نہیں کراچی اور کوئٹہ میں کرتے تو ان کی لاشوں کو حساب کرنے والا کوئی نہیں ہوتا چونکہ پنجاب کے دونوں لیڈر جی ٹی روڈ کے لیڈر ہیں ۔ ان کو اجازت ہے کہ وہ ملک کی سیکورٹی کو داؤ پر لگائیں امن عامہ تباہ کریں پورے ملک کی معیشت کو مفلوج بنائیں پولیس پر حملے کریں پارلیمان کے ارکان ‘ حکومت وزیروں کے خلاف غلط زبان استعمال کریں ۔ ان کو اجازت دی گئی ہے ۔ فوج کے نام کو انہی دنوں لیڈروں نے غلط طورپر استعمال کیا اور بار بار یہ اشارے دئیے کہ گھنٹوں میں حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے گا اور عمران خان کو ملک کا نیا وزیر اعظم تعینات کردیا جائے گا۔ باقی تمام جماعتوں نے فوج کوسیاست میں ملوث کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ آئین اور قانون کی بالادستی کی بات کی ۔ پارلیمان نے یہ موقف اختیار کیا کہ وہ غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات تسلیم نہیں کرتے یہ عمران خان اور ڈاکٹر قادری تھے جو غیر آئینی اقدامات کی دعوت دیتے رہے ۔ ان کے خلاف غداری کا مقدمہ درج نہیں ہوا ۔ شاید آئندہ بھی نہ ہو مگر گزشتہ روز کے کریک ڈاؤن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے ایک محدود پیمانے پر اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ابھی 300سے زائدافراد گرفتار ہوچکے ہیں ۔ ان میں سے 11افراد غیر قانونی اسلحہ رکھنے جرم میں اور کچھ اور لوگ پی ٹی وی پر حملہ کرنے کے جرم میں گرفتار ہوئے ہیں۔ اس محدود کریک ڈاؤن کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت یہ پیغام لوگوں تک پہنچانا چاہتی ہے ان دونوں پارٹیوں کے خلاف کارروائی کی ابتداء ہوچکی ہے ۔ عنقریب اسلام آباد سے دھرنا ختم کیا جائے گا۔ پہلے پولیس کو ان لوگوں کے خلاف کارروائی سے نہ صرف منع کیا گیاتھا بلکہ ان کو اسلحہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی گئی سوائے ابتدائی دنوں میں جب پولیس نے آنسو گیس کے شیل پھینکے اب پولیس گرفتاریاں کررہی ہے ۔ خصوصاً ان لوگوں کو جو سنگین جرائم میں ملوث ہیں ۔